’’اور (ان کے لیے) جنھوں نے ان سے پہلے اس گھر میں اور ایمان میں جگہ بنا لی ہے، وہ ان سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئے اور وہ اپنے سینوں میں اس چیز کی کوئی خواہش نہیں پاتے جو ان (مہاجرین) کو دی جائے اور اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ انھیں سخت حاجت ہو اور جو کوئی اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہیں۔‘‘ مہمات و سرایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جونہی مدینہ میں مسلمانوں کو استقرار حاصل ہوا، انھوں نے فوجی مہمات شروع کردیں، جن کا مقصدیہ تھا کہ اندرونی و بیرونی سطح پر اسلامی حکومت کا دبدبہ قائم ہوسکے، بعض دیگر قبائل عرب بھی اسلام میں داخل ہوجائیں، اعراب (بدویوں) کا مخالفانہ کردار ڈھیلا پڑ جائے اور مستقبل میں بڑے بڑے غزوات اور تحریک فتوحات نیز قائدین پیدا کرنے والے عملی میدانوں کے لیے صحابہ کو جنگی مہارت کی تربیت دی جائے، چنانچہ ان مہمات میں علی رضی اللہ عنہ نے شرکت فرمائی، انھیں میں سے ایک ’’غزوہ عشیرہ‘‘ ہے جو غزوۃ بدر الکبریٰ سے پہلے واقع ہوئی ۔ غزوہ عشیرہ[1]: مقام ’’عشیرہ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے غزوہ کا ارادہ کیا تھا، چنانچہ ابوسلمہ بن عبدالاسد رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرکے عشیرہ کی طرف غزوہ کے لیے نکل پڑے، وہاں پہنچ کر جمادی الاولیٰ اور جمادی الاخریٰ کے ابتدائی کچھ ایام قیام کیا، دوران قیام بنومدلج اوران کے حلیف بنوضمرہ سے آپ نے باہمی نصرت و تعاون پر معاہدہ کیا اور مدینہ واپس لوٹ آئے، کوئی جنگ نہ ہوئی، اس لیے کہ شام کی طرف جانے والے جس قافلہ کو آپ نشانہ بنانے نکلے تھے وہ آپ کے پہنچنے سے پہلے ہی ساحلی راستہ سے آگے نکل چکا تھا۔[2] عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اس غزوہ میں اپنی اور علی رضی اللہ عنہ کی شرکت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں: ’’غزوہ ذی العشیرہ‘‘ میں میں اور علی دونوں ساتھ ساتھ تھے، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پہنچے اور چند ایام قیام کیا تو کھجور کے ایک باغ میں ایک چشمہ کے پاس بنومدلج کے کچھ لوگ کام کرتے ہوئے نظر آئے، علی رضی اللہ عنہ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے: اے ابوالیقظان! کیو ں نہ ان کے پاس چل کر دیکھا جائے کہ کیسے کام کرتے ہیں؟ پھر ہم ان کے پاس آئے اور کچھ دیر ان کے اُمور کا مشاہدہ کرتے رہے، پھر ہمیں نیند آنے لگی ، اس لیے ہم دونوں وہاں سے چل دیے اور باغ کی دیوار سے متصل خالص مٹی پر آکر سوگئے اور گہری نیند سوئے، اگر کسی نے ہمیں بیدار کیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ ہمارے قدموں کو ہلا رہے تھے، اور ہم مٹی میں لت پت تھے، اس موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی دیکھی تو علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ’’یَا اَبَا تُرَابٍ‘‘ اے ابوتراب۔ ’’اَ لَا اُحَدّثُکُمَا بِأَشْقَی النَّاسِرَجُلَیْنِ؟‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |