Maktaba Wahhabi

686 - 1201
متبعین میں اعتماد پیدا کرنا کہ وہ مستقبل میں جی نہ چھوٹا کریں اور ان کی دل شکنی نہ ہو۔[1] صحیح بات یہ ہے کہ معرکۂ جمل میں مقتولین کی تعداد نہایت مختصر تھی، اس کے اسباب و دلائل یہ ہیں: 1۔ لڑائی کا دورانیہ نہایت مختصر تھا، چنانچہ ابن ابی شیبہ صحیح سند سے نقل کرتے ہیں کہ ظہر کے بعد لڑائی کا آغاز ہوا اور سورج ڈوبتے ڈوبتے کوئی بھی شخص عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس دفاع کرتا نظر نہ آیا۔[2] 2۔ جنگ میں دفاعی طبیعت کی دخل اندازی، جیسا کہ گزر چکا ہے فریقین میں سے ہر ایک اپنی طرف سے دفاع ہی کی کوشش کررہا تھا۔ 3۔ قتال میں شرکت کرنے سے ہر فریق کو حرج کا احساس ہوا کیوں مسلمان کے خون کی حرمت کا انھیں علم تھا۔ 4۔ معرکۂ یرموک جس میں تین ہزار مسلمان شہید ہوئے تھے اور معرکۂ قادسیہ جس میں آٹھ ہزار پانچ سو (8500) مسلمان شہید ہوئے تھے، سے اس جنگ کا موازانہ کہ یہ دونوں جنگیں کئی دنوں تک لڑی گئی تھیں، پس ان کے بالمقابل معرکۂ جمل کے مقتولین کی حقیقی تعداد نہایت مختصر ہونا چاہیے کیونکہ یہ لڑائی بہت تھوڑی دیر تک ہوئی تھی، ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر ہونا چاہیے کہ وہ معرکے بہت سخت اور تیز تھے، اور امم کی تاریخ میں انھیں فیصلہ کن معرکوں کی حیثیت حاصل تھی۔ 5۔ خلیفہ بن خیاط نے اپنی یاداشت کے مطابق معرکۂ جمل کے مقتولین کی تعداد کی فہرست تیار کی ہے جن کی تعداد کل ایک سو (100) تک پہنچتی ہے[3] اگر ہم فرض کرلیں کہ ان کی تعداد اس سے زیادہ یعنی دوسو (200) تھی، تو بھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ دوسو سے کچھ متجاوز نہ تھی، ڈاکٹر خالد بن محمد الغیث اپنے تحقیقی مقالہ بعنوان ’’استشہاد عثمان و وقعۃ الجمل فی مرویات سیف بن عمر فی تاریخ الطبری دراسۃ نقدیۃ‘‘ میں اسی تعداد کو صحیح اور راجح مانتے ہیں۔[4] 4۔کیا مروان بن حکم نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا؟ بہت سی روایات سے اشارہ ملتا ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو مروان بن حکم نے قتل کیا تھا،[5] لیکن ان روایات کی فنی تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مروان بن حکم اس تہمت سے پاک ہیں، کیونکہ: حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’بیان کیا جاتا ہے کہ مروان بن حکم نے طلحہ رضی اللہ عنہ کو تیر مارا تھا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے علاوہ کسی دوسرے نے آپ کو تیر مارا تھا، میری تحقیق میں آخر الذکرہی زیادہ صحیح ہے۔ اگرچہ شہرت اوّل الذکر کو ہے۔ واللہ اعلم۔‘‘ [6]
Flag Counter