Maktaba Wahhabi

286 - 1201
ساتھ دانتوں سے پکڑلو۔‘‘ اس حدیث میں جن خلفاء کا ذکر ہے وہ ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم ہی ہیں ۔[1] امام ایوب سختیانی نے اس مقام پر بہت ہی عمدہ، بات کہی ہے، فرماتے ہیں: ’’ جس نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پسند کیا اس نے دین قائم کیا، جس نے عمر رضی اللہ عنہ کو پسند کیا اس نے راستہ کھولا، اور اسے واضح کیا، جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کو پسند کیا وہ اللہ کے نور سے منور ہوا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ کو پسند کیا اس نے مضبوط کڑے کو سختی سے پکڑ لیا، جو شخص صحابہ کرام کے بارے میں اچھی بات کہے وہ نفاق سے پاک ہے۔‘‘ [2] کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے: اِنِّیْ رَضِیْتُ عَلیاً قُدْوَۃً عَلَماً کَمَارَضِیْتُ عَتِیْقاً صَاحِبَ الْغَارِ ’’میں علی رضی اللہ عنہ کو اپنا قدوہ اور نشان ہدایت مان کر خوش ہوں، جس طرح کہ میں عتیق اور غار والے یعنی ابو بکر صدیق سے خوش ومطمئن ہوں۔‘‘ وَقَدْ رَضِیْتُ اَبَا حَفْصٍ وَشِیْعَتہٖ وَمَا رَضِیْتُ بِقَتْلِ الشَّیْخِ فِی الدَّارِ ’’میں ابو حفص (عمر رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں سے خوش ہوں، لیکن شیخ (عثمان رضی اللہ عنہ ) کو گھر میں قتل کردینے سے میں ہرگز خوش نہیں ہوں۔‘‘ کُلُّ الصَّحَابَۃ عِنْدِی قُدْوَۃٌ عَلَمٌ فَہَلْ عَلَيّ بہذا القَوْلِ مِنْ عَارِ ’’تمام صحابہ میرے نزدیک قدوہ اور نشان ہدایت ہیں پس کیا اسے کہتے ہوئے مجھے کوئی شرم ہے؟ ‘‘ اِنْ کُنْتُ تَعْلَمُ اِنِّیْ لَا اُحِبُّہُمُ إِلَّا لِوَجْہِکَ أعْتِقْنِیْ مِنَ النَّارِ[3] ’’اے اللہ! یقینا تو جانتا ہے کہ میں ان سے محض تیری رضا کے لیے محبت کرتا ہوں، تو مجھے جہنم سے آزاد کردے۔‘‘ بہرحال علی اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے درمیان نمایاں ومنفرد تعلقات کے قطعی اور روشن دلائل موجود ہیں۔ تفصیل کے ساتھ پیچھے صفحات میں بیان کیا جاچکا ہے۔ یہاں مزید چند دلائل کا ذکر کیاجارہا ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں خلفائے راشدین کی کیسی قدر ومنزلت تھی۔ 1۔ جنت کے پختہ عمر اور جوانوں کے دو سردار: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، اتنے میں ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما آگئے آپ نے انھیں دیکھ کر فرمایا: ((یَاعَلِیُّ ہَذَانِ سَیِّدَا کَہُوْلِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ وَشَبَابُہَا بَعْدَ النَّبِیِّیْنَ وَالْمُرْسَلِیْنَ۔))[4]
Flag Counter