فرمائی: پہلا یہ کہ اس سے دل میں اللہ کا خوف اور طبیعت میں تواضع پیدا ہوتی ہے اور غرور و انا کی لعنت سے نفرت کا احساس ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس طرز عمل سے آپ کی شخصیت مسلمانو ں کی نگاہ میں قابل تقلید نمونہ بنے گی، جب وہ دیکھیں گے کہ آپ اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے کے باوجود پیوند لگا ہوا کپڑا پہنتے ہیں تو ان کی طبیعتوں میں بھی تواضع و خاکساری کا جذبہ ابھرے گا اور قیمتی و مہنگے کپڑوں کی خریداری میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے سے پرہیز کریں گے، نیز نیکوکاروں اور زاہدوں کی جماعت کو اس سے تقویت ملے گی جو کہ اپنی زاہدانہ زندگی کی وجہ سے لوگوں کی ملامتوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔[1] خلیفہ کے لیے بیت المال سے دو پیالوں سے زیادہ خوراک لینا جائز نہیں: عبداللہ بن زُریر غافقی کا بیان ہے کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، انھوں نے میری طرف خزیرہ[2] بڑھایا ، میں نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے یہ بطخ کھلائی ہوتی، اللہ نے کافی فراغت دی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابن زریر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ((لَا یَحِلُّ لِلْخَلِیْفَۃِ مِنْ مَّالِ اللّٰہِ إِلَّا قَصْعَتَانِ ، قَصْعَۃٌ یَاْکُلْہَا ہُوَ وَأَہْلُہٗ وَقَصْعَۃٌ یَضَعُہَا بَیْنَ یَدَیِ النَّاسِ۔)) [3] ’’خلیفہ کے لیے اللہ کے مال سے دو پیالہ خوراک سے زیادہ لینا جائز نہیں، ایک پیالہ اس کے اور اس کے گھر والوں کے لیے اور دوسرا پیالہ جسے دوسروں کے سامنے پیش کرے۔‘‘ اس دنیائے فانی کی متاعِ خورد و نوش کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی زاہدانہ زندگی کی یہ ایک اعلیٰ مثال ہے۔ آپ چاہتے تو دائرہ احتیاط میں رہ کر اس سے زیادہ بھی مال لے سکتے تھے اور مسلمانوں کے مال دار طبقہ کی زندگی پاسکتے تھے، لیکن اخروی زندگی کے عیش کو دنیوی زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے اور صالح قدوہ کو نمایاں کرتے ہوئے آپ نے نہایت سادہ اور معمولی زندگی کو پسند کیا۔ملک کا اعلیٰ ترین حاکم ہونے کے باوجود آپ کے اس معیار زندگی میں دراصل ناداروں اور فقیروں کو تسلی کا پیغام تھا تاکہ وہ اپنی حالت پر صبر کریں اور اللہ کے فیصلہ و تقدیر پر راضی رہیں، اور مال داروں کو یہ وعظ و تلقین تھی کہ وہ اپنی حالت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اسراف و عیش پرستی سے دور بھاگیں۔[4] میں چاہتا ہوں کہ صرف وہی کھاؤں جس کے حلال وپاک ہونے کا مجھے علم ہو: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جس بوری میں اپنے کھانے کے لیے جو کا آٹا رکھتے تھے اس پر مہر لگادیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرے پیٹ میں کوئی ایسی چیز جائے جس کے حلال و پاک ہونے کا مجھے علم نہ ہو۔[5] سفیان کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اینٹ پر اینٹ نہیں رکھی، اور نہ بانس کی پھٹیوں پر بانس کی پھٹی رکھی (یعنی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |