کا اعلان کیا ہے، جن میں علی، طلحہ، زبیر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔اس موقع پر عثمان رضی اللہ عنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ میں رہ گئے تھے، جن کی طرف سے آپ نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں ڈال کر بیعت کی اوریہ رمز ان کے اپنے ہاتھوں سے زیادہ مقدس و بابرکت ثابت ہوا۔[1] ٭ جس قوم کے بارے میں اللہ جل و علا نے یہ خبر دی ہو کہ وہ کفر، فسق اور نافرمانیوں سے نفرت کرتی ہے اور وہ نیکوکاروں کی جماعت ہے، ایسی قوم سے کفر کا ارتکاب ناممکن ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾ (الحجرات: 7) ’’اور جان لو کہ بے شک تم میں اللہ کا رسول ہے، اگر وہ بہت سے کاموں میں تمھارا کہا مان لے تو یقینا تم مشکل میں پڑ جاؤ اور لیکن اللہ نے تمھارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا اور اسے تمھارے دلوں میں مزین کر دیا اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمھارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا، یہی لوگ ہدایت والے ہیں۔‘‘ پس اس آیت کریمہ میں اللہ نے بتا دیا کہ اس نے ان کے دلوں میں ایمان کو محبوب ترین چیز بنا دیا ہے، اس لیے ان سے وہی اعمال خیر صادر ہوں گے جو اللہ کی رضا سے موافق ہوں گے اور اسی بنیاد پر وہ ہدایت یافتہ کہے جانے کے مستحق ہوں گے، جیسا کہ آیت کریمہ بتا رہی ہے، لہٰذا روافض اور خوارج کی ناعقلی کے مطابق ان برگزیدہ ہستیوں کی تکفیر کیسے کی جاسکتی ہے، جب کہ ان میں کلام الٰہی کی تلاوت ہوتی ہے اوران کا رسول ان کے درمیان موجود ہے! جب اللہ نے ان کی نگاہوں میں کفر کو ناپسندیدہ کردیا ہے اور انھیں ہدایت یافتہ بنا دیا ہے تو پھر کیسے انھیں کافر کہنا درست ہوسکتا ہے؟ چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عثمان، علی، طلحہ، زبیر، ابن عباس، عائشہ، عمروبن عاص، ابوموسیٰ اشعری، معاویہ رضی اللہ عنہم اور جنگ جمل و صفین میں شرکت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرکے یہ جاہل و کم عقل خوارج راہ راست سے بھٹک چکے ہیں۔[2] دور حاضر میں خوارج کی روش اور ان کی بعض علامات دور حاضر میں بھی مسلمانوں کے متعدد گروہوں میں مختلف انداز و اشکال میں خوارج کے رجحانات ابھرنا شروع ہوگئے ہیں، وہ کبھی جماعتوں کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں اور کبھی افراد، تحریکات، نظریات اور مخصوص جُھنڈوں کی شکل میں۔ کبھی مناہج و اسلوب کو نمایاں کرتے ہیں کبھی مواقف و تصرفات کو۔ ان کی یہ کاوشیں کبھی انفرادی ہوتی ہیں اورکبھی اجتماعی، بہرحال ان کے رجحانات کسی بھی شکل میں ابھریں وہ خطرہ کی گھنٹی ہوتے ہیں اور اسلام کی زرخیز وادی میں ان کے عقائد و افکار اور اخلاقیات و سلوکیات کے بیج بوئے جانا حاملین شریعت کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |