تین دن سمجھاتے رہے، لیکن انھوں نے ایک نہ سنی،[1] اس طرح علی رضی اللہ عنہ کے کئی ایلچی خوارج کے پاس برابر آتے جاتے رہے اور انھوں نے کئی ایک کو قتل بھی کردیا، پھر نہر پار کرکے مشرق میں اتر آئے۔[2] جب خوارج اپنی دیدہ دلیری میں اس حدتک پہنچ گئے اور جنگ بندی و مصالحت کی تمام امیدوں کو کاٹ دیا، حق کی طرف بلانے والی تمام کوششوں کو نہایت غرور و سرکشی کے ساتھ ماننے سے انکار کردیا اور جنگ کے لیے بضد رہے۔ تو علی رضی اللہ عنہ نے فوج کو مرتب کیا اور اسے مورچہ لینے کے لیے تیار ہونے کو کہا۔[3] میمنہ پر حجر بن عدی، میسرہ پر شبت بن ربعی اور معقل بن قیس الریاحی کو، شہ سواروں پر ابوایوب انصاری، پاپیادہ دستہ پر ابوقتادۃ انصاری اور اہل مدینہ پر جن کی تعداد سات سو تھی، قیس بن سعد بن عبادہ کو مقرر کیا اور ابوایوب انصاری کو خوارج میں امان کا جھنڈا دے کر یہ اعلان کروایا کہ جو اس جھنڈے کے نیچے آجائے اسے امان ہے اور جو کوفہ یا مدائن چلا جائے اسے بھی امان ہے، جن لوگوں نے ہمارے بھائیوں کو قتل کیا ہے ان کے علاوہ کسی سے لڑنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہ اعلان سن کر ان کے کئی گروہ واپس لوٹ گئے، اب جن خوارج کی تعداد چار ہزار تھی صرف ایک ہزار بلکہ اس سے بھی کم تعداد میں سمٹ گئی، جس کی قیادت عبداللہ بن وہب الراسبی کر رہا تھا، خوارج کی یہ مختصر سی جماعت علی رضی اللہ عنہ کی فوج سے نبرد آزما ہوئی، اس کے میمنہ پر زید بن حصن الطائی السنبسی، میسرہ پر شریح بن اوفیٰ، شہ سواروں پر حمزہ بن سنان اور پاپیادہ دستہ پر حرقوص بن زہیر سعدی مقرر تھا۔[4] 3۔ جنگ کا آغاز: جب خوارج نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف پیش قدمی کی، تو علی رضی اللہ عنہ نے تیر انداز شہ سواروں کو آگے بڑھایا، ان کے پیچھے پاپیادہ دستوں کی صف بندی کی اور اپنی فوج سے کہتے رہے کہ ’’تم اس وقت تک اپناہاتھ روکے رکھنا جب تک کہ وہ آغاز نہ کردیں، پھر خوارج لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰہِ، جنت کی طرف بڑھو، جنت کی طرف چلو‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے تیرانداز شہ سواروں پر حملہ آور ہوئے، شہ سوار دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ایک میمنہ کی طرف سمٹ گیا اور ایک میسرہ کی طرف اور جب یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے گھیرے میں آگئے تو تیر اندازوں نے ان پر تیروں کی بارش شروع کردی، ان کے چہروں کو چھلنی کردیا، میمنہ اور میسرہ سے شہ سوار پل پڑے، پھر بقیہ فوج نے نیزوں اور تلواروں سے انھیں موت کے گھاٹ سلا دیا اور گھوڑوں کے کھُروں کے نیچے وہ خوب روندے گئے، ان کے تمام قائدین یعنی عبداللہ بن وہب، حرقوص بن زہیر، شریح بن اوفیٰ اور عبداللہ بن سنجرۃ السلمی قتل کیے گئے۔[5] ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک خارجی کو ایسا نیزہ مارا جو اس کے جسم کو چھلنی کرتا ہوا پیٹھ سے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |