باہر نکل گیا، اور میں نے اس سے کہا: اے اللہ کے دشمن تو جہنم رسید! تو اس نے کہا: تم عنقریب جان لوگے کہ کون جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔[1] اس جنگ سے بہت سارے خوارج نے اس لیے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی کہ انھوں نے اپنے امیر عبداللہ بن وہب الراسبی کی زبان سے ایک ایسی بات سن لی تھی جس سے انھیں اپنی عاقبت کے بارے میں عدم واقفیت اور یقین میں تزلزل کی بو آرہی تھی، اس نے یہ بات اس وقت کی ہے جب علی رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے ایک خارجی کو مارا، تو اس نے کہا: خوش آمدید، کیا ہی بہتر ہے جنت کا سفر، اس کی یہ بات سن کر عبداللہ بن وہب راسبی کہنے لگا: کیا معلوم جنت کا سفر ہے یا جہنم کا؟ [2] عبداللہ بن وہب سے یہ بات سنتے ہی بنوسعد کا ایک آدمی فروۃ بن نوفل اشجعی کہنے لگا: میں اس شخص کے دھوکا میں آگیا، مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ خود مشکوک ہے؟ پھر وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک ہزار خارجیوں کے ساتھ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے چلا آیا، پھر رفتہ رفتہ کئی خارجی نکل نکل کر اس جھنڈے تلے آگئے۔[3] اس طرح فیصلہ کن جنگ نہایت مختصر مدت یعنی نو صفر 38ھ کے صرف چند گھنٹوں کو شامل رہی۔[4] لیکن اسی مختصر مدت میں خوارج کی ایک بھاری تعداد کا صفایا کردیا، جب کہ اس کے برعکس صحیح مسلم میں زید بن وہب کے بیان کے مطابق علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے فقط دو آدمی،[5] اور بسند حسن دوسری روایت کے مطابق کل بارہ (12) یا تیرہ (13) آدمی قتل کیے گئے۔[6] جب کہ ایک تیسری صحیح روایت میں ہے کہ ابومجلز[7] نے کہا : مسلمانوں یعنی علی رضی اللہ عنہ کی فوج کے صرف نو (9) آدمی قتل ہوئے، اگر اس کی تصدیق چاہتے ہو تو ابوبرزہ [8]سے جاکر اسے پوچھ لو، وہ اس جنگ میں موجود تھے۔[9] اور جہاں تک خوارج کے مقتولین کی بات ہے تو اس سلسلہ میں روایات بتاتی ہیں کہ ان سب کا صفایا ہوگیا تھا۔[10] جب کہ مسعودی کا خیال ہے کہ خوارج کی نہایت معمولی تعداد جو کہ دس سے بھی کم تھی، بچ سکی تھی، جو ذلت آمیز ہزیمت اٹھا کر بھاگی۔ [11] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |