Maktaba Wahhabi

866 - 1201
فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ (الحجرات: 9) ’’تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے۔‘‘ چنانچہ اگر کسی مسلمان پر جان لیوا حملہ ہو تو وہ اپنی دفاع میں اسے قتل کرسکتا ہے بشرطیکہ قتل کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو۔ اسی طرح دوران قتال اہل عدل نے اہل بغاوت کے جن اموال کو برباد کیا وہ اس کا تاوان نہ دیں گے۔[1] اسی طرح بقول امام نووی علماء کے صحیح ترین اقوال کی روشنی میں اگر اہل بغاوت نے دوران قتال اہل عدل کا جانی و مالی نقصان کیا ہے تو وہ اس کا تاوان نہیں دیں گے۔[2] اس کی دلیل وہ اجماع صحابہ ہے جو زہری کی سند سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں: پہلا فتنہ پھوٹ پڑا اور اصحاب رسول موجود تھے، ان میں بدری صحابہ بھی تھے وہ سب اس بات پر متفق تھے کہ قرآن میں تاویل کی بنا پر باہمی قتل و خون ریزی کی وجہ سے کسی سے قصاص نہ لیا جائے اور نہ کسی کا مال چھینا جائے۔[3] ’’ عبدالرزاق‘‘ کی روایت میں ہے کہ پہلا فتنہ پھوٹ پڑا اور بدر میں شریک ہونے والے اصحاب رسول بہت تعداد میں موجود تھے، سب اس بات پر متفق تھے کہ تاویل قرآن کی بنا پر کسی خاتون کو قیدی بنانے اور اس کی شرم گاہ حلال کرلینے والوں پر وہ کوئی حد نافذ نہ کریں اور اسی بنا پر کسی کا خون حلال کرنے والوں سے قصاص نہ لیں اور اسی بنیاد پر دوسروں کا مال حلال کرلینے والوں سے مال واپس نہ لیں، ہاں اگر کوئی چیز ایسی ہو جس کا مالک معلوم ہو تو اسے اس تک واپس کردیا جائے۔[4] خوارج کے چند اہم اوصاف فرقۂ خوارج کی تاریخ کا مطالعہ کرنے والا اس فرقہ کے لوگوں کو چند اہم اوصاف و عادات سے متصف پائے گا وہ اوصاف یہ ہیں: دین میں غلو: اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ خوارج اطاعت گزار اور عبادات کے پابند ہوتے ہیں، یہ اپنے عہد آغاز ہی سے اس بات کے حریص رہے ہیں کہ دین پر مکمل طور سے کاربند رہیں اور اسلام جن چیزوں سے منع کرتا ہے اس سے دور رہیں، اسلام کی نگاہ میں کسی بھی چھوٹے بڑے جرم کا ارتکاب نہ کریں، یہ دین داری ان کی ایسی نمایاں صفت ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں، اس بات کی تائید کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے بڑھ کر
Flag Counter