11۔ باغیوں کے مقتولین کو غسل دلایا جائے گا، تکفین ہوگی اور ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اس لیے کہ امام شافعی اور اصحاب الرائے کے مسلک کے مطابق وہ مسلمان ہیں۔[1] 12۔ اگر بغاوت کرنے والے اہل بدعت میں سے نہ ہوں تو وہ فاسق نہیں کہے جائیں گے۔ امام المسلمین اور اہل عدل کے خلاف ان کی بغاوت ان کی اجتہادی غلطی پر محمول ہو گی اور وہ فقہائے مجتہدین کے حکم میں ہوں گے، اگر ان کا عادل فرد گواہی دے رہا ہے تو امام شافعی کے قول کے بموجب اس کی گواہی قبول کی جائے گی، لیکن اگر خوارج اور اہل بدعت امام کے خلاف بغاوت کریں تو ان کی گواہی قبول نہ کی جائے گی، اس لیے کہ یہ لوگ فاسق ہیں۔[2] 13۔ امام عادل کے لیے اپنے خونی رشتہ کے قرابت دار باغی کو قتل کردینا جائز ہے، کیونکہ وہ اسے ناحق نہیں قتل کر رہا ہے، گویا یہ قتل اس پر حد نافذ کرنے کی مشابہ ہے، تاہم اسے اس سے گریز کرنا چاہیے۔[3] 14۔ اگر کسی شہر پر بغاوت کرنے والوں کا غلبہ ہو جائے اور وہ اپنے نظام کے تحت خراج، زکوٰۃ اور جزیہ وغیرہ کی وصولی کے ساتھ حدود بھی قائم کرتے ہوں، پھر حالات بدلیں اور اہل عدل اس شہر پر قابض ہوجائیں، تو گزشتہ اموال کی وصولی میں سے کچھ نہ لیا جائے گا، کیونکہ جنگ جمل کے بعد جب اہل بصرہ پر علی رضی اللہ عنہ کو غلبہ ملا تھا تو آپ نے ان سے ماضی کے محصولات میں سے کسی مال کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ [4] 15۔ باغی و عادل کی وراثت کا حکم: کوئی باغی قاتل کسی عادل کا وارث نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عادل قاتل کسی باغی کا وراث بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَلْقَاتِلُ لَا یَرِثُ))[5] ’’قاتل وارث نہیں ہوگا۔‘‘ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں عادل کو باغی کا وارث بناتا ہوں، لیکن باغی کو عادل کا وارث نہیں بناتا۔‘‘ ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’میں دونوں کو ایک دوسرے کا وارث بناتا ہوں، کیونکہ دونوں کا قتل ان کی اجتہادی غلطی پر مبنی ہے۔‘‘[6] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی کے قائل ہیں۔[7] 16۔ اگر اہل بغاوت کو قتل کے بغیر مات دینا ممکن نہ ہو تو انھیں قتل کیا جاسکتا ہے اور قاتل پر کوئی گناہ، ضمانت، یا کفارہ واجب نہ ہوگا، کیونکہ اس نے شرعی حکم کے مطابق اقدام کیا اور اللہ کی خاطر اسے قتل کیا، اللہ فرماتا ہے: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |