Maktaba Wahhabi

495 - 1201
ثَلَاثٍ: اَلثَّیِّبُ الزَّانِیْ، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِکُ لِدِیْنِہٖ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَۃِ۔))[1] ’’کسی مسلمان کا خون جو کلمہ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ کا ماننے والا ہو حلال نہیں ہے، البتہ تین صورتوں میں جائز ہے جان کے بدلہ جان (قاتل)، شادی شدہ ہو کر زنا کرنے والا اور اسلام سے نکل جانے والا جماعت کو چھوڑ دینے والا(مرتد) ۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر مرتد کو ارتداد کی پاداش میں قتل نہ کیا جائے تو دین میں داخل ہونے والے جب چاہیں اس سے نکلتے رہیں گے، لہٰذا مرتدین کے قتل کرنے میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کی حفاظت ہے۔ یہ سزا انھیں دین سے نکلنے اور مسلمانوں کی تعداد میں کمی واقع ہونے کے لیے رکاوٹ اور سدِ باب ہے۔[2] 2۔ حد زنا: الف:… واقعہ رجم: شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ شراحہ کے شوہر ملک شام گئے تھے اور وہیں غائب ہوگئے، شراحہ اپنے گھر پر حاملہ ہوگئی، اسے اس کا آقا امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ اس نے زنا کیا ہے اور اعتراف کر رہی ہے، آپ نے جمعرات کے دن اسے سو کوڑے مارے اور جمعہ کے دن رجم کیا۔ آپ نے اس کے لیے ناف تک گڑھا کھودا، میں وہاں موجود تھا، پھر فرمایا: رجم کرنا سنت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا ہے اور اگر کوئی اس واقعہ پر گواہی دینے والا ہوتا تو آج اولاً شاہد اپنی شہادت دیتا اور پھر پتھر مارتا، لیکن چونکہ شراحہ خود اعتراف کرچکی ہے اس لیے میں سب سے پہلے اسے پتھر مار رہا ہوں، چنانچہ آپ نے اسے پتھر مارا پھر دوسرے لوگوں نے پتھر مارے، میں بھی ان میں سے ایک تھا۔ اللہ کی قسم میں بھی اسے قتل کرنے والوں میں شامل تھا اور مسند احمد و صحیح بخاری کے الفاظ میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے اللہ کی کتاب کی وجہ سے اسے کوڑے لگائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی وجہ سے اسے رجم کیا۔[3] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ عدالتی فیصلہ آپ کے اجتہاد پر مبنی تھا اور یہ مسئلہ فقہاء کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ جمہور کا قول ہے کہ سنگساری اور کوڑے مارنے کو جمع نہیں کیا جائے گا۔[4] اس واقعہ کی تفصیل ایک روایت میں اس طرح وارد ہے کہ آپ نے اس کے لیے بازار میں ایک گڑھا کھودا، لوگ گئے اور اس کے ارد گرد گھوم کر چلے آئے، یا اسے کچھ ملامت کیا اور واپس آگئے، آپ نے ان لوگوں کو درے لگائے اور کہا کہ رجم اس طرح نہیں ہوتا، اگر تم ایسے ہی کرو گے تو تمھیں میں سے ہر ایک دوسرے کی عزت چاک کرتا پھرے گا، تم نماز کی طرح صف بندی کرو، پھر فرمایا: اے لوگو! اگر زانی کو اعتراف ہے تو اسے سب سے پہلے امام رجم کرے اور اگر چار گواہوں کی گواہی کی بنا پر رجم کیا جارہاہے تو سب سے پہلے وہی لوگ زانی کو پتھر ماریں، پھر امام پھر عام لوگ، چنانچہ آپ نے اللہ اکبر کی صدا کے
Flag Counter