بیعت خلافت کا بنیادی تعلق اہل مدینہ سے تھا، ہم نے اس وقت اسے ضائع کردینا اچھا نہیں سمجھا،[1] اس لیے بیعت لے لی گئی۔ واضح رہے کہ علی رضی اللہ عنہ اس بات کے قائل تھے کہ مدینہ میں موجود مہاجرین و انصار صحابہ کے علاوہ بھی بیعت خلافت منعقد ہوسکتی ہے اورآپ ان کے لیے توقف کرسکتے تھے، لیکن ایک ورع و تقویٰ کا احساس تھا جو انتخاب خلیفہ میں دوسروں کی شرکت یا انھیں مکمل حوالگی کی اجازت دینے سے مانع تھا، اور وہ احساس یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پیشرو خلفائے راشدین کا دور ہدایت گزرنے کے بعد ایسا کوئی عمل نہ ہو جو ان کے منہج اور راستہ سے ہٹاہوا ہو۔ یا آپ یہ سوچتے رہے ہوں کہ مسلمان حاکم کی انتخابی کارروائی میں غیرمہاجرین و انصار کو شریک کرنے کا موقع ابھی نہیں آیا ہے اس لیے آپ یہ ناپسند کرتے تھے کہ مہاجرین و انصار کے ہاتھ سے یہ حق نگل نہ جائے۔[2]اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ جب اہل کوفہ نے علی رضی اللہ عنہ سے حسن رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی خواہش ظاہر کی توآپ نے فرمایا: ’’نہ میں تمھیں روکتا ہوں اور نہ تمھیں حکم دیتا ہوں۔‘‘ گویا آپ اہل مدینہ کے علاوہ دوسرے لوگوں کے بھی مسلم حاکم کے انتخاب میں شرکت کے قائل تھے۔ حسن اور علی رضی اللہ عنہما کے مذکورہ گفتگو سے چند باتیں سامنے آتی ہیں: ا: بحث و تکرار کے وقت طرفین کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ ب: علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حسن کے ساتھ نہایت لطیف و نرم برتاؤ کیا۔ ج: بحث و تکرار کے دوران بیٹے کو اپنے باپ سے صریح گفتگو اور واضح و صحیح اظہار رائے کا حق ہے۔ د: فریق ثانی کا پورا مدعا نہایت اطمینان سے سننا چاہیے، علی بن ابی طالب نے اپنے بیٹے حسن کی پوری باتیں مع دلائل بغور سماعت فرمائیں۔ ھ: بحث و مباحثہ کے وقت ایک ایک دلیل کا علمی تجزیہ کرنا چاہیے۔[3] 3۔ تاکہ منصب خلافت خالی نہ رہے: مہاجرین و انصار مدینہ نے علی رضی اللہ عنہ کی عدم رضامندی کے باوجود ان پر زبردست دباؤ ڈالا کہ خلافت قبول کرلیں، تاکہ امت مسلمہ فساد وانتشار سے محفوظ ہوجائے، چنانچہ آپ نے بالآخراسے قبول کرہی لیا، لیکن ہنگامہ خیز حالات پر قابو پانے اور شورش کے طوفان کو ایک قدم اور پیچھے ڈھکیلنے کے لیے آپ نے یہ شرط لگائی کہ بیعت عامہ علی الاعلان مسجد میں ہوگی، اس طرح امام کی تعیین کا حق اہل حل و عقد کوحاصل رہا اور عام لوگوں کے لیے اعلانیہ بیعت عامہ رہی۔[4] پھر اسی اصول کو مستحکم کرتے ہوئے آپ منبر پر تشریف لے گئے اور کہا : اے لوگو! یہ تمھارا معاملہ ہے، |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |