جائے گا تو وہ اسے عذاب دے گا، بہت برا عذاب اور رہا وہ جو ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو اس کے لیے بدلہ میں بھلائی ہے اورعنقریب ہم اسے اپنے کام میں سے سرا سر آسانی کا حکم دیں گے۔‘‘ بے شک ایک عمدہ اور صالح قیادت کی یہی تربیت ہی نیکوکاروں کو ہمت افزائی کے محرکات فراہم کرسکتی ہے، تاکہ نیکوکار نیکی میں آگے بڑھتے رہیں۔ یہی تربیت زیادہ سے زیادہ احسان ونیکی کے جذبات کو ابھارتی ہے اور نیکوکاروں کو احترام وعزت کا احساس دلاتی ہے۔ یہی تربیت بدکاروں کے ہاتھ کو بدی کی طرف بڑھنے سے روکتی ہے، تاکہ بدکار بدی کو چھوڑ کر معاشرہ میں خیر و احسان کے دائرہ کو وسیع کرے اور قانون جزاء و سزا کے مطابق برائی وفساد کے دائرہ کو زیا دہ سے زیادہ تنگ کردے، امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے مذکورہ خطاب میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 11۔ ریاستی نظام و قوانین کو مستحکم کرنے میں نقباء اور عرفاء کا کردار: مسلمانوں کے درمیان نقباء کی شخصیات کا تعارف بیعت عقبۂ ثانیہ کے موقع پر ہوا، جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار پر انھیں میں سے بارہ (12) نقیبوں کو مقرر کیا تھا، ان میں تین (3) اوس، اور نو (9) خزرج کے تھے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مختلف اسلامی افواج میں نقباء (اعلیٰ ذمہ داران) اور عرفائ، (منتظمین) کی تنظیم و تقرر کا سلسلہ برقرار رہا، جنگ قادسیہ کے موقع پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں لوگوں کو منظم کیا گیا، جس میں تمام قبائل اکٹھا ہوئے اور آپ نے فوجی کمانڈروں کی تقرری کے ساتھ ہر دس آدمی کا ایک عریف (امیر وذمہ دار) مقرر کیا جیسا کہ دور نبوی میں عرفاء کا تقرر ہوتا تھا اور یہ نظام ما بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا، یہاں تک کہ حکومتی سطح پر عطیات مقرر کیے جانے لگے اور اسلام کی طرف سبقت لے جانے والے صحابہ اسلامی فوج کے علم بردار منتخب ہونے لگے۔ اور دس دس افراد کی جماعت بنا کر ہرد س پر ایک امیر اور پھر ان امراء کی دہائی پر ایک بااثر ذمہ دار مقرر ہونے لگا۔[2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ پہلے ایسے شخص ہیں جنھوں نے عام طو رسے تمام شہروں میں عوام کی درجہ بندی کا نظام قائم کیا اور آپ کے زمانہ میں مختلف اسلامی شہروں میں لوگوں پر عرفاء کا تقرر عمل میں آیا۔ یہی لوگ گورنر کے پاس اُس دور کی درجہ بندی کے مطابق [3] اپنے قبائل اورما تحت جماعتوں کے ذمہ دار اور ان کے بارے میں جواب دہ ہوتے تھے۔ عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کے پورے عہد خلافت تک عرفاء کا نظام چلتا رہا، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نقباء کو جمع کرتے، اور انھیں ان کے حصہ کے مطابق اموال دیتے، جسے وہ لوگ اپنے قبائل اور ماتحت جماعتوں پر تقسیم کرتے۔[4] صوبائی گورنران ریاست کے مختلف شہری اور فوجی معاملات میں ان نقباء سے تعاون لیتے تھے، چنانچہ یہی لوگ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |