الایہ کہ شراب نوشی کا معاملہ ہو، وہ مرگیا تو میں اس کی دیت دوں گا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسنون نہیں قرار دیا ہے۔[1] عقل، انسانی عظمت و تکریم کی شان اور اس کی امتیازی پہچان ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اللہ نے شرعی احکامات نازل کیے ہیں اور شراب کو اسی لیے حرام کیا کہ وہ عقل کو زائل کردیتی ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾ (المائدۃ:90) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر نجس ہیں، شیطان کے کام سے ہیں، سو ان سے بچو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((کُلُّ مُسْکَرٍ خَمْرٌ وَ کُلٌّ خَمْرٍ حَرَامٌ۔))[2]… ’’ہر نشہ آور خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے۔‘‘ چنانچہ انسانی عقل کی حفاظت ہی کے لیے شراب سے بدمست انسان پر شریعت نے حد نافذ کی، اور نشہ آور نیز دیگر و ہ ساری چیزیں جو عقل میں فتور پیدا کرتی ہیں انھیں حرام قرار دیا۔[3]انسان سے عقل کی حفاظت شرعاً مطلوب ہے، اس لیے کہ اس پر دیگر ضروریات دینیہ کی حفاظت و بقا منحصر ہے اور اس کی اہمیت و مقام کو نظر انداز کردینے پر لاتعداد مفاسد پیدا ہوتے ہیں۔[4] 4۔ چوری کی حد: الف:…محفوظ مقام پر ہونے کي شرط: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک چور کا ہاتھ کاٹنے کے لیے ضروری ہے کہ اس نے چوری کسی محفوظ جگہ سے کی ہو، چنانچہ ضمیرہ کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا یہاں تک کہ وہ گھر سے نکالے۔[5] ب:…شبہِ ملک والے سامان کي چوري: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس چور کا ہاتھ نہیں کاکاٹا جائے گا جس نے ایسے مال سے چوری کی ہو جس میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |