Maktaba Wahhabi

254 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر جواہر القرآن میں ہیں: 1۔نذرونیاز صرف اللہ کے لیے: یہاں دعویٰ توحید کا اعادہ کیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ہوگیا کہ سب سے پہلے جس چیز کا اظہار واجب ہے اور جس کا چھپانا کسی حال میں بھی جائز نہیں وہ توحید ہے۔ لما حذر تعالیٰ من کتمان الحق بین ان اول مایجب اظهاره ولا یجوز کتمانه امر التوحید[1]اور اعادہ دعویٰ کی وجہ پہلے بیان ہوچکی ہے کہ شروع میں تو شرک فی الدعاء کی نفی تھی۔ اب یہاں سے شرک فعلی کی نفی مقصود ہے یعنی جس طرح اللہ کے سوا کوئی پکارنے کے لائق نہیں اسی طرح اللہ کے سوا نذرومنت کا مستحق بھی کوئی نہیں اور نہ ہی کسی کی تعظیم کے لیے سانڈ وغیرہ چھوڑنے جائز ہیں جیسا کہ آگے اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَةَ الخ میں غیر اللہ کی نذرونیاز اور كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا الخ میں تحریمات لغیر اللہ کا بیان آرہا ہے۔ اِلٰہٌ سے مراد وہ زات ہے جو عالم الغیب، قادر علی الاطلاق، مالک ومختار، حاجت روا ومشکل کشا ہونے کی وجہ سے تمام عبادات مالیہ، بدنیہ، اور لسانیہ کی مستحق ہو، جسے حاجات میں پکارا جائے، مصائب وبلیات میں جس کی پناہ ڈھونڈی جائے، جس کی رضامندی اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کی نذریں اور منتیں دی جائیں۔ اور رنج وبلا اور قحط ووباء میں جس کی دہائی دی جائے اس سے مدد طلب کی جائے۔ اور واحد سے مراد یہ ہے کہ وہ بے مثل او بیگانہ ہے۔ ذات وصفات میں بے نظیر ہے۔ اور استحقاق عبادت میں اس کا کوئی شریک نہیں۔ واکثر الناس علی ان الواحدهنا بمعنی لا نظیر له ولا شبیه فی ذاته ولا فی صفاته ولا فی افعاله۔۔۔ واصح الاقوال عند ذی العقول السلیمة انه الذی لا نظیر له ولا شبیه له فی استحقاق العبادة([2])فرد فی الوهيته لاشریک له فیها ولا یصح ان یسمی غیره الهاً[3] لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ۔ لا نفی جنس کے لیے ہے اور اس کی خبر محذوف ہے اور الا بمعنی غَیْرُ ہے ای لا اله موجود غیره یعنی نفس الامر اور عالم وجود میں اللہ کے سوا کسی الٰہ کا نام ونشان تک موجود نہیں۔ پہلے جملہ سے اس بات کی نفی کی ہے کہ دنیا میں مستحق عبادت صرف اللہ ہی ہے اور اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں۔ تو شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید دنیا میں اللہ کے سوا کوئی اور بھی الہ ہو، لیکن مستحق عبادت نہ ہو، تو اس جملہ میں سرے سے وجود الہ ہی کی نفی فرمادی۔ ومزیح علی ما قیل لام عسی ان یتوهم ان فی الوجود الها
Flag Counter