’’اللہ کے مال میں، میں نے خود کو یتیم کے نگراں کے قائم مقام بنایا ہے، اگر میں اس سے بے نیاز ہوا تو اسے بھی چھوڑ دوں گا اور اگر مزید ضرورت محسوس ہوئی تو معروف طریقہ سے کھاؤں گا۔ ‘‘[1] ب:…سواد عراق کے بارے سیّدنا میں علي رضی اللہ عنہ کي رائے: جب جنگ کے ذریعہ سے عراق کی وہ زمین فتح ہوئی جسے’’ ارض سواد‘‘ کہا جاتا ہے تو کئی صحابہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیاکہ اس زمین کو فاتحین کے درمیان تقسیم کردیں لیکن زمین کی کشادگی وشادابی دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ کی دور رس نگاہیں اس مشورہ پر مطمئن نہ ہوئیں، کیونکہ آپ اسے بعد میں آنے والے مسلمانوں کے لیے چھوڑ نا چاہتے تھے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ اسے تقسیم نہ کریں، دونوں کی آراء یکساں ٹھہریں اور آپ نے ان کا مشورہ قبول کرلیا، اور کہا: ’’اگر بعد میں آنے والے مسلمان نہ ہوتے تو میں جن علاقوں کو فتح کرتا انھیں وہاں کے باشندوں میں تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کردیا تھا۔‘‘ [2] ج:…تم اس مال کو ضرور تقسیم کردو: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرتبہ بہت سارا مال آیا، مستحقین میں تقسیم کرنے کے بعد کچھ مال بچ گیا، تو آپ نے اس کے بارے میں صحابہ کرام سے مشورہ کیا، سب کا مشورہ یہ تھا کہ کسی ناگہانی آفت کے لیے اسے باقی رہنے دیں۔ علی رضی اللہ عنہ نہایت خاموش بیٹھے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی رائے معلوم کرنا چاہی۔ علی رضی اللہ عنہ نے انھیں دور نبوی میں بحرین سے آئے ہوئے مال کاواقعہ یاد دلایا اور کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ بھی باقی نہ چھوڑا تھا، سب کا سب تقسیم کردیا تھا، پھر عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے اے علی! آپ اس مال کو ضرور تقسیم کردیں۔ سیّڈنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے تقسیم کیا۔[3] شاید یہ واقعہ دوا وین مرتب کیے جانے سے پہلے کا ہے۔ [4] 2۔ اداری امور میں: جب ملکی امور کو منظم کرنے کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک سرکاری تاریخ مقرر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے لوگوں کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ کس دن سے ہم اپنے سن کی بنیاد رکھیں؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ جس دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی، اور سرزمین شرک کو چھوڑا تھا، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔[5] آپ کے بارے میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا اعتماد تھا کہ آپ لوگوں کی سب سے بہترین قیادت کرسکتے ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ آپ کسی انصاری سے پست آواز میں باتیں کررہے تھے، دوران گفتگو اس سے پوچھا: میرے بعد تم لوگ کسے خلیفہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |