اور اس آیت میں تمہاری نصیحت کے لیے یہ کافی ہے کہ یہ سید ولد آدم اور خاتم الرسول ہیں جن کو اللہ عزوجل یہ حکم فرماتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندوں سے یہ کہیں کہ میں اپنے نفس سے کسی ضرر کو دور کرنے کا مالک نہیں ہوں اور نہ اپنی ذات کے لیے کسی نفع کے حصول پر قادر ہوں تو دوسروں کے لیے کسی ضرر کو دور کرنے اور ان کے لیے نفع کے حصول پر کیسے قادر ہوں گا۔پس اُن لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو مُردوں کی قبروں پر جم کر بیٹھتے ہیں اور اُن سے اپنی حاجات کو طلب کرتے ہیں جن حاجات کو پورا کرنے پر اللہ عزوجل کے سوا کوئی قادر نہیں ہے سو وہ کس طرح سمجھ حاصل نہیں کرتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس سےبھی زیادہ تعجب اُن علماء پر ہوتا ہے جو ان لوگوں کو غیر اللہ سے طلب حوائج پر منع نہیں کرتے اور یہ لوگ تو زمانۂ جاہلیت کے مشرکین سے بدتر ہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین یہ مانتے تھے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ وہی خالق‘رازق‘زندہ فرمانے والے‘مارنے والے‘ وہی ضرر پہنچانے والےاوروہی نفع عطا فرمانے والے ہیں۔وہ اپنے بتوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کرنے والا مانتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والا مانتے تھے اور اس زمانہ کے قبر پرست لوگ اولیاء اللہ کے لیے ضرر پہنچانے اور نفع دینے کی قدرت مانتے ہیں اور کبھی ان کو استقلاً پکارتے ہیں اور کبھی اللہ کے ساتھ پکارتے ہیں۔اللہ شیطان کو رسوا فرمائیں‘اس نے اس ذریعہ سے اس امتِ مبارکہ میں اس قسم کے کفریہ عقائد ڈال دیے۔[1] اس آیت کی تفسیر میں اسی طرح کی تفسیر ایک اور غیر مقلد عالم شیخ محمد بن علی بن محمد شوکانی نے لکھی ہے اور نواب صدیق حسن بھوپالی کی تفسیر شیخ شوکانی کی تفسیر ہی کا چربہ ہے۔[2] مصنف کا نواب صدیق حسن بھوپالی اور قاضی شوکانی کی تفسیر کا رد کرنا: ’’میں کہتا ہوں کہ نواب صدیق حسن بھوپالی اور قاضی شوکانی نے سورۂ یونس کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقاَ نفع رسانی اور دفعِ ضرر کی نفی کر دی ہے‘حالانکہ قرآن مجید کی متعدد آیات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفع پہنچانا ثابت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ‘‘[3](اور انہوں نے(مسلمانوں میں)عیب ہی کون سا دیکھا ہے سوا اس کے کہ خدا نے اپنے فضل سے اور اس کے پیغمبر نے(اپنی مہربانی سے)ان کو دولت مند کر دیا ہے۔) ’’ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَيُؤْتِينَا اللّٰهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ‘‘[4](اور اگر وہ اس پر خوش رہتے جو خدا اور اس کے رسول نے ان کو دیا تھا۔ اور کہتے کہ ہمیں خدا کافی ہے اور خدا |
Book Name | مباحث توحید،تفسیر جواہر القرآن اور تفسیر تبیان الفرقان کا تقابلی مطالعہ |
Writer | حافظ محمد اکرام |
Publisher | شعبۂ علوم اسلامیہ، جامعہ پنجاب لاہور |
Publish Year | 2015ء-2017ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 263 |
Introduction |