Maktaba Wahhabi

248 - 263
ہوتا تو پھر یہ کہا جا سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وعید کے مطابق اس وقت عذاب نازل نہیں فرمایا۔[1] شیخ اشرف علی تھانوی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: (اے نبی اور اے مسلمانو)یہ وعدہ(عذاب کا)کب(واقع ہوگا)اگر تم سچے ہو(تو واقع کیوں نہیں کرا دیتے)آپ(سب کی طرف سے جواب میں)فرما دیجئے گہ میں(خود)اپنی ذات خاص کے لیے تو کسی نفع(کے حاصل کرنے)کا اور کسی ضرر(کے دفع کرنے کا)اختیار رکھتا ہی نہیں مگر جتنا(اختیار)خدا کو منظور ہو(اتنااختیار البتہ حاصل ہے پس جب خاص اپنے نفع ونقصان کا ملک نہیں تو دوسرے کے نفع ونقصان کا تو کیونکر مالک ہوں گا پس عذاب واقع کرنا میرے اختیار میں نہیں رہا یہ کہ کب واقع ہوگا سو بات یہ ہے کہ)ہر امت کے(عذاب کے)لیے(اللہ کے نزدیک)ایک معین وقت ہے خواہ دنیا میں یا آخرت میں سو)جب ان کا وہ معین وقت آپہنچتا ہے تو(اس وقت)ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور نہ آگے سرک سکتے ہیں(بلکہ فوراً عذاب واقع ہو جاتا ہے اسی طرح تمہارے عذاب کا وقت بھی معین ہے اس وقت اس کا وقوع ہو جاوے گا)۔ [2] مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق بن حسن القنوجی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یعنی میں اپنے لیے کسی نفع کے حصول پر قادر نہیں ہوں اور نہ کسی ضرر کودور کرنے پر قادر ہوں تو اپنے غیر کے لیے کسی نفع کے حصول یا ضرر کو دفع کرنے پر کیسے قادر ہوں گا۔اور اس آیت میں ضرر کے دفع کرنے کو نفع کے حصول پر مقدم فرمایا ہے کیونکہ کلام کا سیاق اس میں ہے کہ آپ اس وعید کے اظہار کرنے میں عاجز تھے جس وعید کا وہ عجلت سے مطالبہ کرتے تھے اور اس آیت میں’’إِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ‘‘کا استثناء منقطع ہے جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے اور یہی زمخشری کا قول ہے‘لیکن اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے سو میں کیسے اس پر قادر ہوں گا کہ اپنے نفس سے ضرر کو دور کرنے پر قادر ہوں یا نفع کے حصول پر قادر ہوں اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ استثناء متصل ہے یعنی جس ضرر کو دور کرنے کو اور جس نفع کے حصول کو اللہ چاہیں اس پر میں قادر ہوں اور پہلا معنی زیادہ بہتر ہے۔ اس آیت میں اُن لوگوں کےلیے بہت زجر وتوبیخ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے ہیں اور مصائب کے نزول کے وقت آپ سے مدد طلب کرتے ہیں جن مصائب و دور کرنے پر اللہ عزوجل کے سوا کوئی قادر نہیں ہے اور یہ اللہ عزوجل رب العالمین کا مقام ہے جنہوں نے انبیاء وصالحین کو پیدا فرمایا اور تمام مخلوقین کو رزق عطا فرمایا‘اور وہی ان کو زندہ کرتے ہیں اور مارتے ہیں پس انبیاء میں سے کسی نبی سے یا فرشتوں میں سے کسی فرشتہ سے یا اولیاء اللہ میں سے کسی نبک بندےسے کیسے اس چیز کو طلب کیا جائےگا جس سے وہ عاجز ہے اور قادر نہیں ہے اور وہ شخص رب الارباب سے طلب کو ترک کرتا ہے جو ہر چیز پر قادر ہیں‘خالق ہیں‘رازق ہیں‘دینے اور منع فرمانے والے ہیں۔
Flag Counter