Maktaba Wahhabi

102 - 263
ناسخ ومنسوخ میں علامہ سعیدی رحمہ اللہ کا طریق کار: مسلمانوں کا نسخ کے جواز پر اجماع ہے اور یہود نے نسخ کا انکار کیا ہے کیونکہ ان کا گمان ہے کہ نسخ بداء ہے یعنی پہلے کسی چیز کا علم نہ ہو پھر بعد میں اس چیز کا علم ہو جیسے پہلے ایک شخص کی کوئی رائے ہو پھر بعد میں اس پر منکشف ہو کہ یہ رائے صحیح نہیں ہے اور یہود کا یہ گمان باطل ہے کیونکہ نسخ کے ذریعہ کسی حکم کی مدت کا بیان ہوتا ہے جیسے کسی کو مارنے کے بعد اس کو زندہ کرنا یا کسی کو زندہ کرنے کے بعد اس کو مارنا اور صحت کے بعد بیماری اور بیماری کے بعد صحت اور خوشحالی کے بعد تنگی اور تنگی کے بعد خوش حالی اور یہ بداء نہیں ہے‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا حکم دینا ہے اور کسی چیز سے منع فرمانا ہے۔ نسخ کے لغوی معنی: علامہ ابو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم ابن منظور الافریقی المصری لکھتے ہیں: نسخ کا معنی ہے: ایک چیز کو باطل کر کے دوسری چیز کو اس کی جگہ قائم کرنا‘ قرآن مجید میں ہے’’ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا‘‘[1] اور دوسری آیت منسوخ ہے اورپہلی آیت ناسخ ہے۔ ابن العربی کہتے ہیں: نسخ کا معنی ہے ایک چیز کو دوسری چیز سے تبدیل کرنا اور ایک آیت کو دوسری آیت سے منسوخ کرنا۔ امام فراء کہتے ہیں: تم ایک آیت پر عمل کرتے ہو پھر دوسری آیت نازل ہوتی ہے تو پھر تم اس پر عمل کرتے ہو اور پہلی آیت کو ترک کر دیتے ہو۔ اور عرب کہتے ہیں’’نسخت الشمس الظل‘‘ یعنی سورج نے سائے کو زائل کر دیا‘ نیز عرب کہتے ہیں’’نسخت الريح آثار الديا‘‘ یعنی ہوا نے آبادی کے نشانات وعلامات کو تبدیل کر دیا۔[2] نسخ کا شرعی اور اصطلاحی معنی: علامہ ابو القاسم الحسین بن محمد الراغب الاصفہانی لکھتے ہیں: قرآن مجید کے بعد والے حکم سے پہلے حکم کو زائل کر دینا۔[3] علامہ علی بن محمد بن علی السید الشریف الجرجانی لکھتے ہیں: ایک دلیل شرعی کے بعد دوسری دلیلِ شرعی وارد ہو جو پہلی دلیل کے حکم کے خلاف مقتضی ہو‘ سو نسخ ہمارے علم کے اعتبار سے حکم کو تبدیل کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اعتبارسے نسخ پہلے حکم کی مدت بیان کرنا ہے۔
Flag Counter