Maktaba Wahhabi

101 - 1201
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے خوب اچھی طرح یہ تعلیم پائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر واجبی حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں، اسی کی وحدانیت کا اقرار کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں: بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٦﴾ (الزمر:66) ’’بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کر اور شکر کرنے والوں سے ہو جا۔‘‘ ارشاد الٰہی ہے: إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا ﴿٤٨﴾ (النسائ:48) ’’بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کا شریک بنایا جائے اور وہ بخش دے گا جو اس کے علاوہ ہے، جسے چاہے گا اور جو اللہ کا شریک بنائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ گھڑا۔‘‘ اسی طرح آپ جانتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس توحید اور عبودیت کے مضمون و تقاضہ کو خاص طور سے قرآن میں ذکر کیا ہے۔رہا کائنات کے بارے میں آپ کا تصور تو اس سلسلہ میں آپ کے سامنے اللہ کا یہ فرمان تھا: قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾ (فصلت:9-12) ’’کہہ دیجیے کیا بے شک تم واقعی اس کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور اس کے لیے شریک بناتے ہو ؟وہی سب جہانوں کا رب ہے اور اس نے اس میں اس کے اوپر سے گڑے ہوئے پہاڑ بنائے اور اس میں بہت برکت رکھی اور اس میں اس کی غذائیں اندازے کے ساتھ رکھیں، چار دن میں، اس حال میں کہ سوال کرنے والوں کے لیے برابر (جواب) ہے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہو ا اور وہ ایک دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہاکہ آؤ خوشی سے یا ناخوشی سے۔ دونوں نے کہا ہم خوشی سے آگئے ۔ تو اس نے انھیں دو دنوں میں سات آسمان پورے بنا دیا اور ہر آسمان میں اس کے کام کی وحی فرمائی اور ہم نے قریب کے آسمان کوچراغوں کے ساتھ زینت دی اور خوب محفوظ کر دیا۔ یہ اس کا اندازہ ہے جو سب پر غالب، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘ آپ کو دنیوی زندگی کے بارے میں کامل یقین تھا کہ یہ خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو جائے، بالآخراس کا انجام زوال و فنا ہی ہے، اس کی آسائشیں کتنی ہی کیوں نہ میسر ہوں، تاہم وہ کم اور بے وقعت ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
Flag Counter