Maktaba Wahhabi

94 - 263
ہیں جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل کی گئی اور انجیل اس کتاب کو کہتے ہیں جو حضرت عیسٰی علیہ السلام پر نازل کی گئی‘بعض عملماء نےکہا ہے کہ اس کتاب کا نام قرآن اس لیے ہے کہ قرآن کا معنی جمع کرنا ہے اور یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کے ثمرات کی جامع ہے بلکہ تمام علوم کے ثمرات کی جامع ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِن تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ یعنی یہ(قرآن)ایسی بات نہیں ہے جو(اپنے دل سے)بنائی گئی ہو بلکہ جو(کتابیں)اس سے پہلے نازل ہوئی ہیں ان کی تصدیق(کرنے والا)ہے اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔[1] نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ یعنی اور ہم نے تم پر(ایسی)کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں)ہر چیز کا بیان(مفصل)ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے۔[2] علامہ علی بن محمد بن علی الحسینی الجرجانی لکھتے ہیں: قرآن اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا نام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بتدریج نازل کیا گیا‘بجو مصاحف میں لکھا ہوا ہے اور ہم تک ایسی نقلِ متواتر سے پہنچا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اہل ہحق کے نزدیک قرآن اس علمِ لدنی اجمالی کا نام ہے جو تمام حقائق کا جامع ہے۔[3] تفسیر کا لغوی معنیٰ: علامہ ابو الفضل جمال الدین محمدبن مکرّم ابن منظور الافریقی المصری لکھتے ہیں: تفسیر کا لفظ’’فسر‘‘سے ماخوذ ہے اور ’’الفسر‘‘ کا معنی ہے’’البیان۔‘‘ابن العربی نے کہا:’’التفسیر والتاویل‘‘دونوں کا معنٰی واحد ہے‘قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا[4] اور تفسیر کا معنی ہے:مشکل لفظ کی مراد کو منکشف کرنا اور تاویل کا معنی ہے:لفظ کو اس کے دو احتمالوں میں سے کسی ایک احتمال کی
Flag Counter