ڈوبی ہوئی آج کی غمگین شام سے زیادہ تکلیف دہ لمحات مدینہ نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے جلدی جلدی ((إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ)) پڑھتے ہوئے آگے بڑھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرکے دروازہ پر کھڑے ہوکر کہنے لگے: اے ابوبکر ! تم پراللہ کی رحمت نازل ہو، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب، مونس و غم خوار، معتمد راز دار اور مشیر تھے، تم مسلمانوں میں سب سے پہلے ایمان لائے، تمھارا ایمان سب سے زیادہ خالص اور تمھارا یقین سب سے زیادہ استوار تھا، تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے اور سب سے بڑھ کر دین کو نفع پہنچانے والے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب سے زیادہ حاضر باش، اسلام پر سب سے زیادہ شفیق، اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سب سے زیادہ بابرکت اور رفاقت میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ صاحب مناقب، فضائل کی دوڑ میں سب سے آگے، درجہ میں سب سے بلند، سیرت و ہیئت میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ، قدرو منزلت میں سب سے بلند، اللہ تعالیٰ تمہیں اسلام کی جانب سے اور اپنے رسول کی جانب سے جزائے خیر دے، تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سچاجانا، جب سب نے آپ کو جھوٹا کہا، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں تمھارا نام صدیق رکھا،اور فرمایا: وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ﴿٣٣﴾ (الزمر:33) ’’اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں ۔‘‘ (اے ابوبکر !) تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت غم خواری کی جب اوروں نے تنگ دلی کی، جب لوگ مصائب کے وقت مدد سے پیٹھ پھیر رہے تھے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد پر قائم رہے، سختی میں تم نے ان کی بہترین رفاقت کی، تم دو میں سے ایک اوررفیق غارتھے اور وہ شخص جس پر اللہ نے تسکین قلب نازل فرمائی اور ہجرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، دین الٰہی اور امت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے، جب لوگ مرتد ہوئے تو تم نے بہترین خلافت کی اور امرالٰہی کی تم نے وہ حفاظت کی جو کسی نبی کے خلیفہ نے نہیں کی تھی، جب تمھارے ساتھی سستی کرنے لگے تو تم اٹھ کھڑے ہوئے اور جب وہ دب گئے تو تم دلیر ہوگئے اور جب وہ کمزور ہوگئے تو تم قوی رہے، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو اس وقت تک لازم پکڑا جب لوگ مضطرب ہوگئے، تم بدن کے ایسے ہی ضعیف تھے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا، تم حکم الٰہی میں قوی، خود اپنے ذہن میں ناچیز، اللہ تعالیٰ کے نزدیک گرامی قدر، انسانوں کی نگاہوں میں باوقار اور ان کے دلوں میں باوقعت تھے، تمھاری طرف کسی کو نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی جرأت نہ تھی اور نہ کوئی طعن کا موقع پاسکتا تھا، نہ مخلوق میں کسی کی بے جا رعایت کرسکتے تھے، عاجز اور ذلیل تمھارے نزدیک قوی معززتھا کہ تم اس کا حق اس کو دلاکر مانتے تھے، اس معاملہ میں قریب وبعید سب تمھاری نظر میں برابر تھے، تمھارا سب سے زیادہ مقرب وہ تھا جو اللہ کا سب سے زیادہ فرماں بردار اور پرہیز گار تھا، تمھاری شان حق پرستی راستی اور نرمی تھی، تمھاراقول حکم اور امر قطعی تھا، تمھارے حکم میں حلم تھا اور حزم، رائے میں دانائی اور عز م، دین تمھاری مدد سے قائم ہوگیا، ایمان تمھاری وجہ سے قوی ہوگیا اور اسلام اور مسلمان مضبوط ہوگئے، تم نے اپنے جانشین کو سخت |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |