معلومات لے کر اورآپ کی باتیں سن کر انھیں بتائیں۔ چنانچہ ان کے بھائی مکہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنیں اور واپس جاکر ابوذر کو بتایا کہ میں نے ان کو دیکھا وہ اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں اور ایسی باتیں کرتے ہیں جو شاعری نہیں ہے۔ ابوذر نے کہا: میں جو معلوم کرناچاہتا تھا وہ تم نہ بتا سکے، پھر انھوں نے خود جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کا عزم کرلیا، گھر سے نکلتے وقت آپ کے بھائی نے کہا: مکہ والوں سے ہوشیا ررہنا، وہ ان سے بغض رکھتے ہیں اوران کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔[1] اس واقعہ سے حاصل ہونے والے فوائد اور درس و عبرت کی باتیں: ٭ ابوذر رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوچکی تھی کہ قریش کے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے والوں کو ناپسند کرتے ہیں، اس لیے آپ نے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حفاظتی تدبیر اختیار کیا اور کسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نہ پوچھا، اگر کسی سے پوچھ لیتے تو قریش والوں کو ان کی آمد کا مقصد معلوم ہوجاتا۔ پھر کوئی بعید بات نہ تھی کہ آپ کو تکالیف دیتے اور مکہ سے بھگا دیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا اور جس مقصد کے لیے آپ نے سفر کی صعوبتیں برداشت کی تھیں اور اپنی قوم کو خیرباد کہا تھا اس سے ناکام لوٹتے۔ مقصد کے اظہار سے پہلے احتیاط و آگاہی: جب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے مکہ آمد کا سبب معلوم کرنا چاہا تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انتہائی احتیاط سے کام لیا اور کوئی جواب نہ دیا، حالانکہ تین دن تک علی رضی اللہ عنہ نے آپ کی ضیافت کی تھی اور جب بتایا بھی تو اس شرط پر کہ میرے معاملہ کو رازہی میں رکھیں گے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے میں میری مدد کریں گے، چنانچہ اس طرح آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔ منزل تک پہنچنے کے لیے خفیہ حفاظتی تدابیر: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کوئی ان دونوں کو دیکھ نہ رہا ہو یا تعاقب میں لگا ہو تو آپ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو مخصوص حرکت و اشارہ سمجھا دیا کہ وہ حرکت و اشارہ میں ہی حالت کی نزاکت کو سمجھ لیں گے، مثلاً یہ کہ جوتا صحیح کرتا دیکھیں یا یہ دیکھیں کہ میں پانی گرا رہا ہوں۔ بلاشبہ اصل منزل یعنی دار ارقم تک پہنچنے کے لیے یہ ایک کامیاب خفیہ حفاظتی تدبیر تھی، جو اسی پر بس نہ تھی بلکہ مکمل احتیاط برتتے ہوئے اور چلنے کے دوران ہر ناگہانی آفت سے بچاؤ کرتے ہوئے آپ ابوذر سے فاصلہ پر چل رہے تھے۔ امن اور حفاظت کے یہ متحرک نقوش صحابہ کے کمالِ تحفظ اور احتیاط کے دلائل ہیں: صحابہ کرام کی حفاظتی حِس اس قدر بیدار تھی اور ان کے دل و دماغ میں اس طرح ہلچل مچی رہتی تھی کہ وہی ان کے اہم اور غیر اہم کاموں کی امتیازی صفت قرار پاتی، ان کی نقل و حرکت منظم و مجرب ہوتی تھی، چنانچہ ہمیں صحابہ کرام کی طرح بیدار مغز رہنے کی سخت ضرورت ہے، خاص طور سے آج کے اس دور میں جب کہ حکومتوں اور |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |