تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے واضح ہدایت تھی کہ راز داری کے ساتھ اس کی حفاظت کی جائے، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اس احتیاط و رازداری کو بخوبی نبھایا اور ابوذر رضی اللہ عنہ کو خفیہ طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ تک لے جانے میں بہت اہم کردار ادا کیا، ابوذر ابھی کفر پر قائم تھے، لیکن جاہلیت کے مراسم کو ناپسند کرتے تھے،بتوں کی پرستش کے قائل نہ تھے، اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کی تردید کرتے تھے اور اسلام قبول کرنے سے تین سال پیشتر کسی ایک سمت کو قبلہ مقرر کیے بغیرنمازیں بھی پڑھتے تھے، بلکہ یوں کہے کہ دین حنیفی کی طرف ان کا فطری میلان تھا اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر سنی تو مکہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا، پھر رات ہوگئی اور لیٹ گئے، علی رضی اللہ عنہ نے جب ان کو دیکھا تو اندازہ کرلیا کہ یہ کوئی باہر سے آنے والا آدمی ہے۔ چنانچہ آپ نے ان کی ضیافت کی اور مزیدکوئی بات نہ کی، پھر صبح ہوئی تو مسجد حرام آئے اور شام تک وہیں گزار دیا، علی رضی اللہ عنہ نے آج بھی ان کو دیکھا اور دوسری رات بھی ان کی ضیافت کی، پھر تیسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا، تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے مکہ آنے کا مقصد پوچھا، جب ابوذر رضی اللہ عنہ نے ان سے رازداری کا عہد و قرار لے لیا تو بتایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی غرض سے آیا ہوں، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یقینا وہ برحق ہیں اور بلاشبہ وہ اللہ کے رسول ہیں، جب صبح کی نیند سے بیدار ہونا تو میرے ساتھ چلنا، راستہ میں اگر میں نے کوئی خطرہ کی بات دیکھی تو کسی دیوار کے قریب جاؤں گا گویا مجھے پیشاب کرنا ہے اور اگر چلتا رہوں تو میرے پیچھے پیچھے آنا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کی بات سنی، اوراسی وقت اسلام قبول کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ((اِرْجِعْ اِلٰی قَوْمِکَ فَأَخْبِرْہُمْ حَتّٰی یَأْتِیَکَ أَمْرِیْ۔)) ’’اب تم اپنی قوم میں واپس جاؤ اور انھیں میرا حال بتاؤ، یہاں تک کہ ہمارے غلبہ کا تمہیں علم ہوجائے۔‘‘ ابوذر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں ان قریشیوں کے مجمع میں پکار کر کلمہ توحید کا اعلان کروں گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس ہو کر مسجد حرام میں آئے اور بلند آواز سے کہا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور یہ محمد اللہ کے رسول ہیں، یہ سنتے ہی سارا مجمع آپ پر ٹوٹ پڑا اور اتنا مارا کہ زمین پر گر پڑے۔ اتنے میں عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے اوپر اپنے کو ڈال کر قریش سے کہا: افسوس! کیا تمھیں معلوم نہیں کہ یہ شخص قبیلۂ غفار سے ہے اور شام جانے والے تمھارے تاجروں کا راستہ ادھر ہی سے پڑتا ہے، اس طرح ان سے آپ کو بچا لیا۔[1] واضح رہے کہ ابوذر نے خود مکہ آنے سے پہلے اپنے بھائی کو بھیجا تھا تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |