Maktaba Wahhabi

206 - 1201
بندے، اس کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے پاک دامن مریم بتول کی طرف ڈالا تھا۔ وہ لوگ یہ سن کرسخت ناراض ہوگئے، اور کہنے لگے: کیا کبھی تم نے ایسے انسان کو دیکھا ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا ہو، اگر تمھارادعویٰ سچا ہے تو کوئی اس کی مثال دو؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید میں یہ آیت نازل فرمائی: إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّـهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿٥٩﴾ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿٦٠﴾ (آل عمران 59-60) ’’بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو گیا۔یہ حق تیرے رب کی طرف سے ہے، سو تو شک کرنے والوں سے نہ ہو۔‘‘ پس یہ آیت کریمہ ایک ایسی منہ توڑ دلیل بن کر نازل ہوئی جس میں ایک انوکھی اور تعجب خیز چیز کو عجیب ترین چیز سے مثال دی گئی۔[1] لیکن جب پُر حکمت مجادلہ اور پرادب گفت وشنید میں کامیابی نہ ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان الٰہی پر عمل کرتے ہوئے انھیں مباہلہ [2]کی دعوت دی: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (آل عمران:61) ’’پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمھیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، آپ کے ساتھ علی، حسن، حسین اورفاطمہ رضی اللہ عنہم بھی تھے، آپ نے ان سے فرمایا: جب میں دعاکروں تو تم آمین کہو۔[3] لیکن دوسری طرف وفد کے لوگوں نے آپس میں کانا پھوسی شروع کردی، اور اپنی ہلاکت سے خائف ہوئے کیونکہ انھیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ آپ یقینا نبی ہیں، اور جو قوم بھی نبی سے مباہلہ کرتی ہے وہ ہلاک ہوکر رہتی ہے، اس لیے انھوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا، اور کہنے لگے! آپ ہمارے لیے جو چاہیں فیصلہ کریں، چنانچہ آپ نے ان سے اس جزیہ پر مصالحت کی کہ وہ دو ہزار حلے مسلمانوں کو دیں گے۔ ایک ہزار رجب کے مہینہ میں اور ایک ہزار صفر کے مہینا میں۔[4] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بحیثیت داعی و قاضی یمن کی طرف 10 ھ : فتح مکہ کے بعد جزیرۂ عرب کے کئی عرب قبائل نے خو دبخود اسلام قبول کرلیاتھا اور جو قبائل اب تک اسلام نہ
Flag Counter