Maktaba Wahhabi

205 - 1201
(16) لوگوں کا ایک وفد نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جائے اور ان میں وہ تین اہم شخصیت بھی ہوں جن کا فیصلہ آخری ہوتا ہے، ایک ’’عاقب‘‘ جو کہ ان کا امیر تھا اور جس کی رائے کے بغیر کوئی کام انجام نہ پاتا تھا، دوسرے ’’سید‘‘ جو کہ ان کے اسفار کا ذمہ دار تھا اور تیسرے ’’ابو الحارث‘‘ جو کہ ان کا بڑا پادری، عالم اور مدارس کا ذمہ دار۔ [1] جب یہ وفد مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو یہ لوگ سفر کا لباس اتار کر لمبے لمبے جُبّے گھسیٹتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، سونے کی انگوٹھیاں بھی پہنے ہوئے تھے، یہ لوگ آئے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب نہ دیا، یہ لوگ کافی دیر تک آپ سے ہم کلام ہونے کا انتظار کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گفتگو نہ کی، پھر یہ لوگ عثمان بن عفان، اور عبدالرحمن بن عوف کے پاس گئے کیونکہ ان سے پہلے ہی سے جان پہچان تھی، دور جاہلیت میں ان دونوں کا قافلہ تجارت نجر ان جایا کرتا تھا اور وہاں سے گیہوں، پھل، اور مکئی وغیرہ کی یہی لوگ خریداری کراتے تھے، بہرحال ان لوگوں نے دونوں کو انصار کی مجلس میں پایا، ان سے مل کر یہ لوگ کہنے لگے اے عثمان، اے عبدالرحمن، تمھارے نبی نے ہمارے نام خط لکھا تھا، ہم نے ان کی بات مان لی، ہم ان کے پاس آئے اور سلام کیا، لیکن انھوں نے ہمارے سلام کا جواب نہ دیا ہم دن بھر منتظر رہے کہ شاید وہ ہم سے مخاطب ہوجائیں لیکن وہ مخاطب نہ ہوئے اور ہم انتظار کرتے کرتے عاجز آگئے۔ تم دونوں کی کیا رائے ہے کیا ہم لوٹ جائیں؟ دونوں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے، آپ بھی انصار کے ساتھ تھے، انھوں نے کہا: اے ابوالحسن! ان لوگوں کے بار ے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا : میرا مشورہ ہے کہ یہ اپنے فخریہ جبّے اور سونے کی انگوٹھیاں اتار دیں اور وہی پرانے کپڑے پہن لیں جنہیں سفر میں پہنا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، اور دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سلام کا جواب دیا، پھر ان سے خیریت پوچھی، اور انھوں نے بھی آپ سے خیریت پوچھی اور پھر طویل گفتگو ہوئی۔[2] دوران گفتگو انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا! ہم لوگ آپ سے پہلے مسلمان ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَمْنَعُکُمْ مِنَ الْاِسْلَامِ ثَلَاثٌ عِبَادَتُکُمْ الصَّلِیْبَ، وَأَکْلُکُمُ الْخِنْزِیْرَ، وَزَعْمُکُمْ أَنَّ لِلّٰہِ وَلَداً۔)) ’’تمھیں مسلمان ہونے کے لیے تین چیزیں مانع ہیں: صلیب کی عبادت، خنزیر کی گوشت خوری اور تمھارا یہ گمان کہ اللہ کی اولاد ہے۔‘‘ پھر اس وفد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دیر تک مناظرہ اور بحث ومباحثہ ہوتا رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں قرآن مجید سے دلیل دیتے، اور ان کے باطل دلائل کو توڑ دیتے، دوران مباحثہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی پوچھا تھا کہ تم ہمارے آقا کو گالی دیتے ہو، اور کہتے ہو کہ وہ اللہ کے بندے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! ہاں وہ اللہ کے
Flag Counter