اہداف و مقاصد حاصل ہوئے کہ جن کا مسلمانوں کے دلوں، عربوں اور اسلامی تاریخ کی جنگوں و فتوحات میں زبردست اثر رہا۔[1] اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ کے موقع پر علی رضی اللہ عنہ کو جب مدینہ میں اپنا نائب بنا دیا تو منافقین کو کینہ و حسد اور دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع ہاتھ لگ گیا، وہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخانہ کلمات بکنے لگے اور یہاں تک کہا کہ اللہ کے رسول نے علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، منافقین کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ ثابت کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ان کے دل منافقت سے بھرے پڑے تھے، چنانچہ صحیح حدیث میں علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا اور عدم سے ذی روح کا وجود بخشا، نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ((اَنْ لَّا یُحِبُّنِیْ اِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُنِیْ اِلَّا مُنَافِقٌ۔)) [2] ’’مجھ سے نہیں محبت کرے گا مگر مومن ہی اور مجھ سے نہیں بغض رکھے گا مگر منافق ہی۔‘‘ اس موقع پر علی رضی اللہ عنہ تبوک روانہ ہونے والے لشکر سے جاملے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہتے ہوئے غزوہ میں اپنی شرکت کا ارادہ ظاہر کیا کہ اے اللہ کے رسول! کیا آپ بچوں اور عورتوں میں مجھے چھوڑ رہے ہیں۔تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَ لَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی غَیْرَ اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔))[3] ’’کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔‘‘ تردید و تنقیح: اس حدیث سے شیعہ حضرات کا یہ استدلال کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بلافصل آپ کے خلیفہ ہیں، قطعاً غلط ہے کیونکہ: ٭ مذکورہ حدیث کا ایک اہم سبب ورود ہے، جسے نظر انداز کرکے حدیث کا مفہوم و معنی متعین کرنا ہرگز مناسب نہیں ہے اور سبب ورود جیسا کہ گزرا، یہ تھا کہ منافقین نے علی رضی اللہ عنہ پر طعن اور آپ کی شان میں گستاخی کی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تردید میں علی رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کو سراہا، اور منافقین کی تکذیب کیا۔ ٭ یہ بات ثابت شدہ اور مسلّم ہے کہ ہارون علیہ السلام کی وفات موسیٰ علیہ السلام سے پہلے ہوئی، جب کہ اس حدیث سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فوراً بعد علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کے لیے استدلال کیا جارہا ہے۔ توایسی صورت میں دونوں مثالیں ایک دوسرے کے موافق نہیں ہیں اور نہ ہی قیاس و مقیس علیہ میں موافقت ہے۔ چنانچہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |