Maktaba Wahhabi

1015 - 1201
اگر مذکورہ حدیث سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کی نامزدگی مقصود ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح فرماتے: ((اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ یُوْشَعَ مِنْ مُّوْسٰی۔))تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ’’یوشع‘‘ تھے، اس لیے کہ موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد یوشع علیہ السلام ہی بنواسرائیل پر موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہارون علیہ السلام کا ذکر کرنا، جو کہ موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں موسیٰ کے خلیفہ تھے نہ کہ آپ کی وفات کے بعد، صرف ایک ہی معنی رکھتا ہے اور وہ یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی دل جوئی ہوجائے اور وہ خوش ہوجائیں، کیونکہ مدینہ میں کمزوروں، عورتوں، بچوں، اور غزوہ سے پیچھے رہ جانے والوں کی دیکھ بھال کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے آپ کو اپنا نائب بنا دینا، آپ کے لیے غم اور افسوس کی بات تھی، تو جناب علی رضی اللہ عنہ کی دلجوئی کے خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح انداز میں فرما دیا کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم پر اپنے بھائی ہارون کو اپنا نائب بنا دیا تھا اور کوہ طور سے اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے لیے چلے گئے تھے، اسی طرح میں تمہیں مدینہ میں اپنا نائب بنا کر جارہا ہوں۔ تاریخ شاہد ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے ہارون علیہ السلام کو اپنی نیابت اس لیے نہیں سونپی تھی کہ اس میں ہارون کی بے عزتی کرنا مقصود تھا، نہیں! بلکہ آپ کو امین اور قابل اعتماد جانا تھا، اے علی بن ابی طالب! تمھارے ساتھ یہی صورت حال میری بھی ہے۔ ٭ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے وصی نہیں تھے کہ ان پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو قیاس کیا جائے۔ بلکہ وہ قرآنی صراحت کے مطابق خود نبی تھے اور وزیر تھے، پس علی رضی اللہ عنہ کی کیفیت کو جو شیعہ حضرات کے نزدیک وصی ہیں نبی نہیں ہیں، ہارون پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، نیز یہ واضح رہے کہ شیعہ حضرات قیاس کو اصلاً تسلیم بھی نہیں کرتے، پھر یہاں قیاس کیوں کرتے ہیں؟ ٭ موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام کے وزیر ہونے سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے وزیر ہونے پر استدلال کرنا مذکورہ استدلال بھی تعجب خیز بات ہے، اس لیے کہ وہ ذات الٰہی جس نے ہارون علیہ السلام کو اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام کا وزیر بنایا وہی ذات اپنی کتاب محکم قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کے مطالبہ کو اس طرح ذکر کر رہی ہے: وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي ﴿٢٩﴾ هَارُونَ أَخِي ﴿٣٠﴾ اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي ﴿٣١﴾ وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي ﴿٣٢﴾ (طہ:29 تا 32) ’’اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ بٹانے والا بنادے۔ہارون کو، جو میرا بھائی ہے۔اس کے ساتھ میری پشت مضبوط کر دے۔ اور اسے میرے کام میں شریک کر دے۔‘‘ تو کیا جو لوگ علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام کے قائم مقام ٹھہراتے ہیں اور دونوں کو یکساں وزیر کا درجہ دیتے ہیں، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں آپ کے شریک کار تھے، جس طرح کہ ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام کے شریک کار رہے؟ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہے تو اس کے کفر اور اسلام سے نکل جانے میں کوئی شک نہیں۔[1]
Flag Counter