٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں صرف علی رضی اللہ عنہ ہی کو اپنا نائب نہیں بنایا، بلکہ دوسروں کو بھی یہ مواقع ملے، چنانچہ غزوۂ بدر میں عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا اور غزوۂ سلیم میں باختلاف روایت سباع بن عرفطہ غفاری، یا ابن ام مکتوم کو بنایا، غزوۂ سویق کے موقع پر بشیر بن عبدالمنذر کو، غزوہ بنومصطلق میں ابوذر غفاری کو، غزوۂ حدیبیہ میں نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو، نیز غزوۂ خیبر کے موقع پر انھیں کو، عمرۃ القضا کے موقع پر عویف بن الاضبط الدیلی کو، فتح مکہ کے موقع پر کلثوم بن حصین بن عتبہ الغفاری کو اورحجۃ الوداع میں ابودجانہ الساعدی کو مدینہ میں اپنا نائب اور امیر مقرر کیا۔ مؤرخ ابن ہشام نے تذکرۂ سیرت نبوی میں مختلف واقعات کے حوالہ سے اس تفصیل کو ذکر کیا ہے۔[1] مزید برآں اس موقع پر مدینہ میں علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کرنا آخری مرتبہ نہ تھا، بلکہ اس کے بعد حجۃ الوداع کے موقع پر علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے کو اپنا نائب مقرر کیا، دراصل یہ سب تبدیلیاں مسلم قائدین کی تربیت نبوی کا ایک حصہ تھیں اور اسی ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا اور مرض الموت میں نماز کی امامت کے لیے تنہا آپ کو نامزد کیا۔ ٭ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علی رضی اللہ عنہ کو ہارون علیہ السلام سے تشبیہ دینا درحقیقت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بتانا مقصود ہے، انھیں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو ان شخصیات سے تشبیہ دی جو ہارون علیہ السلام سے بڑھ کر تھے، چنانچہ غزوۂ بدر میں جب قیدیوں کا معاملہ پیش آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے ان سے فدیہ لے کر انھیں معاف کردینے کا مشورہ دیا، جب کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک ایک کرکے قتل کردینے کا مشورہ دیا، تو اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: (( اِنَّ مَثَلَکَ کَمَثَلِ اِبْرَاہِیْمَ یَوْمَ قَالَ: فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣٦﴾ (ابراہیم:36) وَمثَلَکَ کَمَثَلِ عِیْسٰی اِذْ قَالَ: إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ﴿١١٨﴾ (المائدۃ: 118) ’’اے ابوبکر تمھاری مثال ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے کہ جس دن انھوں نے کہا تھا۔ اور پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت ہی معاف اور کرم کرنے والا ہے۔ اور تمھاری مثال تو عیسیٰ علیہ السلام کی طرح ہے کہ جب انھوں نے فرمایا: اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوے اور فرمایا: (( یَا عُمَرُ! اِنَّ مَثَلَکَ مِثْلَ نُوْحٍ لَمَّا قَالَ: رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ﴿٢٦﴾ (نوح:26) وَمَثَلَکَ کَمَثَلِ مُوْسٰی لَمَّا قَالَ: رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |