Maktaba Wahhabi

258 - 1201
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور آل علی کا عمر رضی اللہ عنہ سے مخلصانہ تعلق سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ آل رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بہت عزت و توقیر کرتے تھے اور انھیں اپنے بیٹوں و خاندان پر ترجیح دیتے تھے۔ اس کی چند مثالیں قابل ذکر ہیں: 1۔ عبداللہ بن عمر کے مقابلہ میں تم اجازت پانے کے زیادہ مستحق ہو: حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک روز عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بیٹے! اگر تم ہمارے پاس بھی آیا کرتے اور مل لیا کرتے توکتنا اچھا ہوتا، ایک روز میں آیا تو دیکھا کہ آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تخلیہ میں ہیں اور ابن عمر دروازہ پر تھے، ان کو اند ر آنے کی اجاز ت نہیں دی گئی تھی، یہ دیکھ کر میں واپس آگیا، پھر ایک دن عمر رضی اللہ عنہ سے سامناہوا تو انھوں نے فرمایا: بیٹے تم میرے پاس آئے نہیں؟ میں نے کہا: میں آیا تھا لیکن آپ معاویہ کے ساتھ تخلیہ میں تھے، میں نے دیکھا کہ ابن عمر واپس ہوگئے تو میں بھی لوٹ آیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم عبداللہ بن عمر سے زیادہ اجازت پانے کے مستحق ہو ہمارے دماغ میں ایمان کی جو تخم ریزی ہوئی وہ اللہ کا احسان ہے پھر تمھارے گھرانے کا فیض ہے، یہ کہہ کر آپ نے سرپر اپنا ہاتھ رکھا۔[1] 2۔ میرے پاس نہیں ہے کہ تم دونوں کو پہناؤں: ابن سعد نے جعفر بن محمد الباقر سے روایت کیا ہے، انھوں نے اپنے والد کے واسطہ سے علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یمن کے حُلّے (جوڑے) آئے، آپ نے لوگوں میں تقسیم کردیے، وہ سب یہ نئے کپڑے پہن کر مسجد نبوی میں ائے، عمر رضی اللہ عنہ منبر اور قبر نبوی کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ آتے سلام کرتے، ان کو دعائیں دیتے، اتنے میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اپنی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان سے نکلے، لوگوں کے درمیان سے گزر رہے تھے اور ان صاحبزادوں کے جسم پر وہ حُلّے نہیں تھے، عمرر رضی اللہ عنہ افسردہ اور اداس بیٹھے ہوئے تھے، پھر کہنے لگے: واللہ میرے پاس نہیں ہے کہ تم دونوں کو پہناؤں۔ لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ نے اپنی رعایا میں تقسیم کردیا بہت اچھا کیا، آخر غمگین کیوں ہیں؟ کہنے لگے: میں ان بچوں کی وجہ سے مغموم ہوں کہ ان کے بدن کے مطابق حلے نہیں تھے، حُلّے بڑے تھے اور ان کے قد نہایت چھوٹے ہیں، اس کے بعد یمن پیغام بھیجاکہ دو جوڑے بعجلت حسن وحسین کے لیے بھیجے جائیں، چنانچہ وہ بھیجے گئے اور آپ نے ان دونوں کو پہنائے تب اطمینان ہوا۔ [2] 3۔ وظیفہ دینے میں بنی ہاشم کو مقدم کرنا: ابو جعفر سے روایت ہے کہ جب اللہ نے فتوحات کے دروازے کھول دیے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کے لیے
Flag Counter