Maktaba Wahhabi

257 - 1201
ہے تو یاد رکھئے ! اب تک اللہ تعالیٰ نے جو فتح وظفر نصیب فرمائی ہے اس میں تعداد کی کثرت کا کوئی دخل نہیں تھا، ہم تو صرف اللہ کی مدد اور اعتماد پر جنگ کرتے رہے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ نہایت عمدہ رائے ہے، میں اسی پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ [1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لیے علی رضی اللہ عنہ کا مشورہ ایک مخلص اور شفیق کا مشورہ تھاکہ آپ خود نہ جائیں، مبادا آپ یہاں سے ہٹیں اور آپ کے پیچھے اہل عرب خانہ جنگی میں مبتلا ہوجائیں آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خبردار کیا کہ پیچھے کی سرحد جو خالی چھوڑ کر جائیں گے اس کا خطرہ مقابل سے زیادہ بھیانک ہوگا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلافت کے لیے علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کیا ہوتا تو علی رضی اللہ عنہ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کر کے، نہایت خلوص ووفاداری سے ا ن لوگوں کا ساتھ دیتے جنھوں نے آپ کا حق غصب کیا تھا ؟ کیا صحابہ کرام آنکھیں موند کر کے اس طرح فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو رائیگاں کرنے والے تھے؟ کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ سب اس طرح غلط بات پر متفق ہوجائیں اور ان میں پیش پیش علی رضی اللہ عنہ ہوں؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں، پوری وضاحت کے ساتھ ہمیں معلوم ہے کہ خلافت فاروقی کے اختتام تک ہی نہیں بلکہ خلافت علی کے اختتام تک تمام مسلمان ایک جماعت تھے، خلافت کے بارے میں ان کے ذہنوں میں قطعاً کوئی اشکال نہ تھا کہ اس کا زیادہ مستحق کون ہے۔[2] واضح رہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عمر رضی اللہ عنہ کی کثرت مشاورت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فقہ وبصیرت، اور علم ومعرفت میں وہ کسی سے کم تھے، کیونکہ صحیح احادیث سے یہ واضح راہ نمائی ملتی ہے کہ آپ علم کی بلندی اور دین داری کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے، بس یہ آپ کا ایمان اور شورائیت سے محبت تھی کہ ایسا کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ میرے بعد آنے والے حکام بھی اس کے عادی ہوجائیں اور ذاتی رائے وحکم کا جبراً کسی کو پابند نہ کریں، ورنہ بہت سارے مسائل میں علی رضی اللہ عنہ اپنی رائے کے مقابلہ میں عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو مانتے تھے۔[3] چنانچہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: باوجود اس کے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ سے اکثر بیشتر مشورہ کرتے تھے، لیکن ایسا ہوتا تھاکہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی رائے مان لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کسی مسئلہ میں عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے مشورہ لیا، میری رائے کچھ تھی اور ان کی رائے کچھ تھی، لیکن میں نے عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی۔[4]
Flag Counter