سیّدنا علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کی پوری زندگی میں ان کے خیر خواہ مشیر تھے، ان سے قلبی لگاؤ تھا اور ہمیشہ ان کی حفاظت کے لیے فکر مند رہتے تھے، عمر رضی اللہ عنہ بھی علی رضی اللہ عنہ کو اسی طرح چاہتے تھے، دونوں میں گہری عقیدت ومحبت اور ایک دوسرے پر کامل اعتماد تھا، حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حقیقت کے باوجود دشمنان اسلام تاریخ کو بگاڑنے پر تلے ہوئے ہیں، اور ان سے متعلق اپنے مزاج و مشرب کے موافق روایات بیان کرکے یہ تصور دینا چاہتے ہیں کہ خلفائے راشدین کا دور ایک ناپاک سیاست کا نمونہ تھا جس میں ہر ایک نے خلافت کی کرسی کو چھیننے اور دوسرے کا کام تمام کرنے کے لیے سازشیں کیں اور وہ ہر کام میں دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے تھے۔ [1] خلافت فاروقی کا گہرائی سے جائزہ لینے سے یہ خصوصیت نمایاں طور سے سامنے آتی ہے کہ علی اور عمر رضی اللہ عنہما کے باہمی تعلق کا نرالا انداز تھا جو کہ خالص اور بے مثال تعاون پر قائم تھا، بیشتر معاملات ومشکلات میں آپ عمر رضی اللہ عنہ کے خصوصی اور مشیر اوّل رہے اور آپ نے جب بھی کوئی مشورہ دیا عمر رضی اللہ عنہ نے بصد اطمینان اسے مانا اور نافذ کیا۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ اخلاص تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے تمام حالات ومسائل میں خیر خواہی کا سلوک کرتے۔[2] چنانچہ اہل فارس مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے اپنی بھاری بھر کم فوج لے کر نہاوند میں جمع ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اس جنگ میں اپنی شرکت سے متعلق ان سے مشورہ لیا، عام لوگوں نے شرکت کرنے کا مشورہ دیا، لیکن علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: ’’حمدو صلاۃ کے بعد: اے امیر المومنین! اگر آپ شام والوں کو شام سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں تو روم والے ان کے اہل وعیال پر حملہ کردیں گے اور اگر یمن والوں کو یمن سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں تو حبشہ والے ان کے اہل وعیال پر حملہ کردیں گے اور اگر خود یہاں سے ہٹتے ہیں تو اطراف واکناف سے سب عرب آپ پر ٹوٹ پڑیں گے، آپ اپنے پیچھے جو غیر محفوظ سرحدیں چھوڑ جائیں گے، وہ ان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہوں گی، جو آپ کے سامنے ہیں، جو جہاں ہیں ان کو وہیں رہنے دیں اور بصرہ والوں کو خط بھیجیں کہ وہ تین حصوں میں تقسیم ہوجائیں، ایک جماعت بصرہ اور وہاں کے اہل وعیال کی حفاظت کرے اور ایک جماعت قرب وجوار کے معاہدین میں چلی جائے تاکہ وہ عہد وپیمان نہ توڑیں اور ایک جماعت اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے کوفہ آئے، اہل عجم کل آپ کو دیکھ کر یہ کہیں گے کہ یہ عرب کی اصل طاقت اور سرمایہ ہیں، اگر تم نے ان پر قابو پا لیا تو ہمیشہ کے لیے چھٹی مل گئی اور یہ بات ان کے مقابلہ کے جذبہ اور صلاحیت کو تیز کردے گی، ان کے حوصلہ اور طمع کو بڑھائے گی اور جوآپ نے ذکر کیا کہ یہ اہل عجم مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکل پڑے ہیں تو اللہ ان کے اس اقدام کو آپ سے زیادہ نا پسندکرتا ہے اور جسے وہ ناپسند فرماتا ہے اس کو بدل دینے پر زیادہ قادر ہے اور آپ نے ان کی تعداد کا جو ذکر کیا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |