Maktaba Wahhabi

23 - 263
﴿وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ﴾[1] ’’اے کاش!آپ دیکھیں جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرتے ہیں جنہوں نے کفر کیا وہ ان کے چہروں پرمارتے ہیں اور پشتوں پر مارتے ہیں اور(کہتے ہیں)چکھو جلنے کا عذاب۔‘‘ تو معلوم ہوا کہ ملک الموت مخصوص فرشتہ نہیں ہے بلکہ جنس ملک الموت مراد ہے لہٰذا اہل بدعت کا استدلال ساقط ہے‘‘([2]) تعین معنی المشترک بالقرآن: معنٰی مشترک کی تعیین کرتے ہوئے مولانا حسین علی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ﴿وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا﴾[3] ’’اور رسول اللہ تم پر گواہی دینے والے ہوں گے۔‘‘ ’’شہید کا معنی حق بتانے والا اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرنے والا۔لیکن شرک وبدعت پسندمولوی کہنے ہیں شہید کا معنی گواہ ہے اور گواہ وہی ہو سکتا ہے جو موقع پر موجود ہو اور واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت پر گواہ ہیں کا معنی ہے آپ ہر وقت ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ لفظ شہید کا معنٰی ومفہوم جو ہم نے بتایا ہے وہی معنٰی سیاق وسباق کے اعتبار سے بھی درست اورموزوں ہے او ر صحابہ کے لیے بھی اسی آیت میں شہدا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اس آیت میں’’ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰهِ[4] بھی یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے‘‘([5]) تفسیر القرآن بسیاق القرآن: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّٰهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ﴾[6] ’’اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال برباد نہ کرو۔‘‘ مولانا الوانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter