فرمایا: ہاں! ابو سلّامہ نے کہا: پھر اسے مؤخر کرنے کے لیے آپ کے پاس کوئی وجہ جواز ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، جب کسی چیز کا حصول مشکل ہو، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس میں احتیاط اور دور رس مفاد کو سامنے رکھا جائے، انھوں نے کہا ایسی صورت میں اگر کل ہمیں لڑنا پڑے تو ہمارا اور ان لوگوں کا کیا حال ہوگا؟ آپ نے فرمایا: میں امید کرتا ہوں، کہ صاف دل ہو کر ہم میں اور ان میں سے جو شخص بھی لڑے گا اسے اللہ تعالیٰ ضرور جنت میں داخل کرے گا۔[1] ٭ اور مالک بن حبیب نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کل جب آپ ان لوگوں سے ملیں گے، تو کیا کریں گے ؟ آپ نے کہا: ہمارے اور ان کے سامنے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ لڑائی سے رک جانے میں بھلائی ہے، پس اگر وہ لوگ اس پر ہم سے بیعت کرلیتے ہیں تو وہی مطلوب ہے، ورنہ جنگ کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، اور یہ ایسا شگاف ہے جس کا بھر نا ممکن نہیں، مالک نے پوچھا: اگر ہمیں لڑنا ہی پڑا تو ہمارے مقتولین کا کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایا: اللہ جسے چاہے گا اس مرتبہ سے سرفراز کرے گا اور وہی اس کی نجات ہوگی۔[2] یقینا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور فتنوں کی آگ بجھانا تھا اور اس مقصد تک رسائی کے لیے جنگ کرنا آپ کی تدابیر میں ہرگز شامل نہ تھا، کیونکہ لڑائی ایک لا علاج مرض ہے اور طرفین کے مقتولین کا انجام ان کی نیتوں پر منحصر ہوتا، خواہ وہ علی کے ساتھ ہوتے یا دوسرے کے ساتھ، اسی لیے امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے واضح طور سے یہ بتا دینا مناسب سمجھا کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اس سلسلہ میں جو لوگ بھی اصلاح کرنے اور فتنہ کی آگ بجھانے کی خاطر نکلے سب کے سب مجتہد ہیں، ان کا بدلہ ان کی نیتوں اور دلوں کی صفائی پر منحصر ہے۔ [3] صلح کی کوششیں: یہ بات گزر چکی ہے کہ بصرہ کی جانب کوچ کرنے سے پہلے علی رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں تک ’’ذوقار‘‘ میں قیام کیا اور ہر ممکن جائز تدابیر کے ذریعہ سے مسلمانوں کے باہمی اختلافات اور فتنہ کو دبانے کی کوشش کی اور مسلمانوں کو جنگ کی نحوست اور مسلح ٹکراؤ سے روکنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی۔ دوسری طرف طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی بھی یہی کوشش تھی۔ بہرحال جب فریقین میں صلح کی خوش آئند علامتیں نظر آئیں تو فتنہ سے کنارہ کش رہنے والے جن چند بزرگ صحابہ اور تابعین نے مصلحانہ کو ششوں میں حصہ لیا،وہ یہ ہیں: عمران بن حصین رضی اللہ عنہ : آپ نے فریقین میں فضاء ہموار کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، پھر بنوعدی جن کی ایک بھاری تعداد زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی، کے پاس اپنا قاصد روانہ کیا، قاصد ان کی مسجدمیں پہنچا اور کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |