Maktaba Wahhabi

670 - 1201
ساتھی عمران بن حصین نے آپ لوگوں کے پاس بھیجا ہے، وہ تمھیں نصیحت کرتے ہیں اور اللہ واحد کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ بدشکل حبشی غلام بن کر پہاڑ کی چوٹی پر بکریاں چراتے ہوئے مرجانا میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ فریقین میں سے کسی ایک کی طرف سے تیر چلاؤں، معلوم نہیں وہ صحیح ہویا غلط، ان کی نصیحت ہے کہ ہم جی جان سے تمھیں چاہتے ہیں، آپ لوگ لڑائی نہ کریں۔ ان لوگوں نے جواب دیا ہمیں مت سمجھائیے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منظور نظر کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑ سکیں گے۔[1] کعب بن سور رحمۃ اللہ علیہ : آپ کبار تابعین میں سے ہیں، آپ نے صلح کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت لگادی، خود کو خطرہ میں ڈال کر ایسا کردار ادا کیا جسے خال خال لوگ ہی انجام دیتے ہیں، آپ مستقل طور سے صلح کی کوشش میں رہے، لیکن بالآخر ساری محنت ناکام ثابت ہوئی اور جنگ جمل کے دوران دونوں فریقوں کو جنگ بندی اور کتاب الٰہی کی ثالثی کی طرف دعو ت دیتے ہوئے قتل کردیے گئے۔[2] قعقاع بن عمرو التمیمي رضی اللہ عنہ : امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمر التمیمی کو طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ صلح کی مہم پر بھیجا اور کہا: ان دونوں صحابہ سے ملو، انھیں اتحاد اور باہمی الفت کی دعوت دو، اختلافات وانتشار کا گناہ اور اس کے نقصانات بتاؤ۔ چنانچہ قعقاع بصرہ کے لیے روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر پہلے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کی اور کہا: اے اماں جان! آپ بصرہ کس لیے آئی ہیں؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے عزیز! لوگوں میں صلح و مصالحت کی خاطر۔ قعقاع نے کہا: آپ طلحہ اور زبیر کو بھی بلوالیں تاکہ آپ کی موجودگی میں اور آپ کے سامنے ان سے گفتگو کروں۔ قعقاع رضی اللہ عنہ کي طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سے گفتگو: پھر جب وہ دونوں آگئے، تو قعقاع رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے بصرہ آمد کا مقصد پوچھا، ان لوگوں نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا جیسا جواب دیا، یعنی ہم اصلاح کی خاطر آئے ہیں، قعقاع نے کہا: آپ لوگ ہی بتائیں کہ اصلاح کی کیا شکل ہوسکتی ہے ؟ اللہ کی قسم! اگر ہم اسے بہتر سمجھیں گے، تو ضرور قبول فرمائیں گے اور اگر غلط سمجھیں گے تو اس سے احتراز کریں گے، ان دونوں نے کہا کہ: قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا ضروری ہے، اگر وہ بلاقصاص چھوڑ دیے گئے تو گویا قرآن کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے احکام کو ناکارہ بنا دیا گیا اور اگر قصاص لیا جاتا ہے تو اس میں قرآنی حکم کا احیاء ہے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا: بصرہ میں چھ سو قاتلین عثمان تھے جنھیں تم نے قتل کیا، ان میں صرف ایک شخص حرقوص بن زہیر السعدی بچ نکلا اور اپنی قوم بنو سعد میں پناہ لے لی، جب آپ لوگوں نے اسے ان سے چھیننا اور قتل کرنا چاہا تو
Flag Counter