اس کی قوم نے آپ لوگوں کو اس سے روک دیا، اورنتیجہ یہ ہوا کہ چھ ہزار لوگ غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے تمھارا ساتھ چھوڑ دیا اور تمھارے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوگئے، اب اگر آپ لوگ حرقوص کو چھوڑ دیتے ہو اور اسے قتل نہیں کرتے تو اپنی بات، اپنا دعویٰ اور جس چیز کا علی سے مطالبہ کر رہے ہو سب کی مخالفت کررہے ہو، اگر آپ لوگ حرقوص کو گرفتار کرنے کے لیے بنو سعد سے لڑرہے ہو تو وہ تم پر غالب آجائیں گے، تمھیں شکست دیں گے اور سب کے سب تم پر ٹوٹ پڑیں گے۔ پھر جس چیز سے آپ لوگ ڈر رہے ہو، اسی میں پڑجاؤ گے، ان کو مضبوط کردو گے اور جس چیز کو نا پسند کرتے ہو، وہی دیکھو گے۔ مزید برآں حرقوص کی گرفتاری کا مطالبہ کرکے تم نے ربیعہ اور مضروالوں کو بھی ناراض کردیا ہے، وہ لوگ بنو سعد کی حمایت میں تم سے جنگ کرنے اور تمھیں رسوا کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی پریشانی ہے، قاتلین عثمان ان کی لشکر میں پائے جاتے ہیں۔ قعقاع حل پیش کرتے ہیں کہ’’اولاً حالات کي ساز گاري پھر قصاص‘‘: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے ساتھی قعقاع کی بات اور ان کے دلائل سے کافی متاثر ہوئے آپ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے قعقاع! پھر آپ کی کیا رائے ہے؟ قعقاع نے کہا: میرے خیال میں فی الحال قاتلین عثمان سے قصاص لینے کے لیے سکون واطمینان کی ضررت ہے۔ جب فضا ساز گار ہوجائے گی، اشتعال ختم ہوجائے گا، اور پوری امت امیر المومنین کی خلافت پر بیعت کرلے گی، اس وقت آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لے سکتی ہیں۔ اگر آپ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ پر بیعت کرلو،[1] تو یہ امت کی بہتری، اس کی عافیت اور سلامتی کے لیے ایک نیک فال ہوگی اور عثمان کا قصاص بھی لیا جاسکے گا اور اگر تم جنگ کے علاوہ کسی اور بات کو قبول نہ کرو گے تو اس سے ایک بہت بڑا فتنہ جنم لے گا اور قصاص بھی ہاتھ سے جاتا رہے گا، لہٰذا عافیت کے طلب گار بنو عافیت ملے گی اور پہلے کی طرح تم خیر کی علامت بن جاؤ، ہمیں مصیبتوں میں مبتلا نہ کرو اور نہ علی کے لیے پیچیدگیاں پیدا کرو، ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اور تمہیں بھی ہلاک کردے گا۔ اللہ کی قسم! میں آپ کو صرف اسی چیز کے لیے دعوت دینے آیا ہوں، مجھے تو حالات درست ہونے کی کوئی توقع نہیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی اس نادار اور مصیبت زدہ امت سے اپنی حجت وصول کرلے،یہ امت ناگفتہ بہ حالات سے گزررہی ہے، یہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ جیسے کسی ایک آدمی نے ایک آدمی کو، یا ایک جماعت نے ایک جماعت کو، یا ایک قبیلہ والوں نے دوسرے قبیلہ والوں کو قتل کردیا ہو، قعقاع کی مخلصانہ، اطمینان بخش اور سچائی میں ڈوبی ہوئی اِس نصیحت کو سن کر سب مطمئن ہوگئے اور ان کی دعوت مصالحت پر لبیک کہتے ہوئے کہا: آپ نے جو بات کہی بالکل صحیح اور درست ہے، آپ جاسکتے ہیں، اگر علی رضی اللہ عنہ آتے ہیں اور ان کے بھی یہی خیالات رہے تو ان شاء اللہ مصالحت ہوجائی گی۔ اب قعقاع رضی اللہ عنہ اپنی مہم میں کامیاب ہوچکے تھے، خوشی خوشی ذوقار میں علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور اپنی گفتگو و |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |