کبھی نہ ہوئی۔ [1] 3: ز یر بحث حدیث کا امامت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی تعلق نہیں: روافض کا عقیدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ المؤمنین ہیں اور معرض استدلال میں آپ کے فضائل پر مشتمل احادیث کو پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان احادیث کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے، من جملہ ان کے دلائل میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اور اس میں انھوں نے غلط باتوں کا اضافہ بھی کرلیا ہے جو کہ محدثین کے یہاں بالکل باطل ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول سے آپ کی محبت اور پھر ان دونوں کے نزدیک آپ کے محبوب ہونے سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد خلفائے ثلاثہ یعنی ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے عرصۂ خلافت کے بغیر آپ ہی خلیفہ ہوں گے یا ہیں،اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کی آپ سے محبت وپسندیدگی شہادت و ثبوت اس بات سے مانع نہیں ہیں کہ دوسرے اس فضیلت سے ہم کنار نہ ہوں، ابو بکر صدیق اور آپ کے رفقاء کے بارے میں بھی اللہ تعالی فرماتا ہے: يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ (المائدۃ: 54) ’’وہ (اللہ) ان سے محبت کرتا ہے، اور وہ (ابو بکر ورفقائ) اس (اللہ) سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ اسی طرح شرکائے بدر کے بارے میں فرمایا: { إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُم بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ ﴿٤﴾ ( الصف:4) ’’بلاشبہ اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صف باندھ کر لڑتے ہیں، جیسے وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہوں۔‘‘ اور مسجد قبا والوں کے بارے میں فرمایا: فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّـهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ ﴿١٠٨﴾ (التوبۃ:108) اس (مسجد قبا ) میں ایسے آدمی ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو محبوب رکھتے ہیں او راللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں سے محبت کرتا ہے۔ نیز اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک سب سے محبوب کون ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: عائشہ! پھر پوچھا گیا: مردوں میں سے؟ تو آپ نے فرمایا: ((اَبُوْھَا)) ’’اس کا باپ۔‘‘[2] پس سیّدناعلی رضی اللہ عنہ کے حق میں محبت اور محبوبیت کی تخصیص، باوجودیہ کہ دوسروں کو بھی یہ فضیلت حاصل ہے۔ دراصل ایک دقیق نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: ((یَفْتَحُ اللّٰہُ عَلَی یَدَیْہِ۔)) [3] میں پوشیدہ ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ اگر محبت اور محبوبیت کے حوالہ سے ہٹ کر فتح کا ذکر ہوتا تو یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ اس میں علی رضی اللہ عنہ کی فضلیت کا کوئی خاص دخل نہیں ہے ۔چنانچہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں مذکور رہ دونوں اوصاف ذکر کے اس وہم کاا زالہ کردیا گیا۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |