Maktaba Wahhabi

196 - 263
آیت کا معنی یہ ہے کہ مشرکین کے خود ساختہ معبود اپنی عبادت کرنے والوں کی تکذیب کر دیں گے۔یعنی اس قول کا رد کر دیں گے کہ وہ خود ساختہ معبود عبادت کے مستحق ہیں اور وہ عبادت کرنے والوں کی سفارش کریں گے۔اور اُن کے خود ساختہ معبودلوگوں سے کسی عذاب کو دور نہیں کر سکیں گے اور نہ کسی کی سفارش کر سکیں گے اور نہ کسی کی مدد کر سکیں گے‘جیسے اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:’’قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِهِ فَلَا يَمْلِكُونَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنكُمْ وَلَا تَحْوِيلًا‘‘(کہو کہ(مشرکو)جن لوگوں کی نسبت تمہیں(معبود ہونے کا)گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے)[1] 7۔اپنے نفس کو معبود بنانے کی تفسیر از مولانا الوانی رحمہ اللہ: ’’أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا‘‘[2] ان مشرکین سے قبول حق کی توقع بےسود ہے یہ کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ محض ضد وعناد کی وجہ سے اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی کر رہے ہیں وہ نفس کے بندے ہیں اور خواہش نفس کو انہوں نے اپنا معبود بنا رکھا ہے یعنی اپنی خواہش سے معبودان باطلہ کو حاجت روا اور برکات دہندہ سمجھ رکھا ہے۔ وہ اپنی مرضی اور خواہش سے جس کو چاہتے ہیں اپنا کارساز اور معبود بنا لیتے ہیں۔ اس سے پہلے ” ان کاد لیضلنا عن الهتنا “ بھی قرینہ ہے کہ مشرکین اپنی خواہش سے جسے چاہتے برکات دہندہ بنا لیتے۔ فالایة شاملة لمن عبد غیر اللّٰه تعالیٰ حسب هواه ولمن اطاع الهوی فی سائر المعاصی وهو الذی یقتضیه کلام الحسن[3]اسی مفہوم کی ایک آیت سورة جاثیہ(رکوع 3)میں ہے ” افرایت من اتخذ الهه هواه الخ “ یعنی خواہش نفس سے غیر اللہ کو کارساز اور حاجت روا بنا لیا۔ آپ ان پر نگران نہیں ہیں کہ ان کو اس سے باز رکھ سکیں۔ آپ کا کام صرف تبلیغ ہے۔ ” ام تحسب الخ “ اور پھر کیا آپ کا خیال ہے کہ ان میں سے اکثر آپ کی باتیں توجہ سے سنتے اور ان میں غور و فکر کرتے ہیں ؟ نہیں نہیں ! ! وہ تو بےتوجہی، غفلت اور گمراہی میں چوپایوں سے بھی بڑھ کر ہیں، وہ نہ حق بات کو توجہ سے سنتے ہیں، نہ اس میں غور و تدبر کرتے ہیں۔ لانهم لا یلقون الی استماع الحق اذنا ولا الی تبدره عقلا و مشبهین بالانعام التی هي مثل فی الغفلة والضلالة الخ[4][5]
Flag Counter