Maktaba Wahhabi

215 - 1201
’’ اس تحریر یا وصیت نامہ کا واقعہ جیسے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے، بڑی وضاحت سے صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں فرمایا: ((اُدْعِی لِيْ أَ بَاکِ وَأَخَاکِ حَتَّی اَکْتُبَ کِتَابًا، فَإِنِّيْ أَخَافُ أَنْ یَتَمَنَّی مُتَمَنٍّوَیَقُوْلَ قَائِلٌ : أَ نَا أَوْلَی، وَیَابَی اللّٰہُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ إِلَّا أَبَابَکْرٍ)) ’’اپنے باپ اور بھائی کو میرے پاس بلاؤ تاکہ میں وصیت لکھ دوں، مجھے ڈر ہے کہ حریص اس کی آرزو کریں گے اور کچھ کہنے والے یہ بھی کہیں گے کہ خلافت کا حق دار میں زیادہ ہوں، مگر ابو بکر کی خلافت کے سوانہ ہی اللہ کسی کی خلافت کو تسلیم کرے گا اور نہ مسلمان۔‘‘[1] اس کے بعد چند روایات لکھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جس رائے کا اظہار کیا اس کے متعلق وصیت لکھوانے کا عزم کرلیا تھا، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ بعض لوگوں کے ذہنوں میں ابو بکر کی خلافت سے متعلق شک حائل ہوگیا ہے ؟ تو سوچا کہ وصیت نامہ اس شک کو زائل نہیں کرسکتا، لہٰذا وصیت نامہ لکھوانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا بھی علم ویقین ہوچکا تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ہی خواہش اور عزم کے مطابق مسلمانوں کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متفق کرے گا، جیسا کہ آپ نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے سوانہ ہی اللہ کسی کی خلافت کو تسلیم کرے گا، نہ مسلمان۔‘‘[2] حدیث کا جو آخری ٹکڑا ہے کہ ((لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِيْ)) میرے بعد گمراہ نہ ہوگے، شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی توجیہ میں فرمایا کہ اگر یہ اعترض کیا جائے کہ جس چیز کو لکھا جانا تھا اس کا تعلق دین سے نہ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ کیوں فرمایا: ((لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِيْ)) یعنی میرے بعدہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ تو اس کاجواب یہ ہے کہ گمراہی کا لفظ مختلف مقامات پر مختلف معانی کے لیے مستعمل ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ نظام مملکت چلانے میں غلطی نہ کرو گے، یعنی جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکالنے، وفود کی خاطرو مدارات کرنے، اور لشکر اسامہ کو روانہ کرنے میں میری سیاست پر کار بندر ہوگئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام اجمعین نے ایساہی کیا، یہاں ’’ضلالت‘‘ کا معنی دین سے گمراہی نہیں ہے۔ [3] 3۔ حدیث کے آخر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ لوگوں نے شور وشغب کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ لکھنے نہ دیا۔[4] اس قول کی تشریح میں ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس وصیت کے لکھنے میں جو چیز حائل ہوئی وہ بڑی مصیبت تھی، لیکن ان کے حق میں مصیبت تھی جنھوں نے خلافت صدیقی کے بارے میں شک کیا اور یہ مسئلہ ان پر مشتبہ ہوگیا۔ اگر کوئی وصیت نامہ ہوتا تو یقینا اس کا شک زائل ہوجاتا اور مصیبت دور ہوجاتی، رہا وہ شخص جسے کامل یقین ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ
Flag Counter