Maktaba Wahhabi

214 - 1201
مسلمانوں کو اس بات پر یقین ہے، اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان کی رمق ہوگی اسے بھی شک نہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے تمام تراحکامات کو پہنچادیا، اوروہ اپنی امت کی خیر خواہی کے ہمیشہ خواہش مند تھے جیسا کہ آپ کی مجاہدانہ زندگی، قربانیاں اور ترغیب وتشجیع کے اقوال و واقعات اس پر دلالت کرتے ہیں، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دیانت داری اور خیرخواہی ہر خاص وعام کے نزدیک مسلّم ہے تو ہمیں اس با ت پر یقین کرنا چاہیے کہ اگر وہ وصیت نامہ اتنا اہم ہوتا جس سے پوری امت گمراہی سے بچ جاتی اور قیامت تک کے لیے اس میں کوئی اختلاف واقع نہ ہوتا، تو عقلاً اور نصًا کسی اعتبارسے یہ بات ہر گز سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنی زندگی کے اس تنگ وقت تک کے لیے مؤخر کیے رہتے اور اگر مؤخر بھی کیا تھا تو محض چند صحابہ کے اختلاف کی وجہ سے اسے بیان نہ کرتے۔[1] ایسا کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے فرمان کی تبلیغ چھوڑدیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ کسی مصلحت کی وجہ سے آپ نے اس وقت نہیں لکھوایا، تو بعدمیں اسے لکھوانے سے کون سی چیز مانع رہی کیونکہ اس کے بعد مزید چند دنوں یعنی دو شنبہ تک آپ باحیات رہے، جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔[2] جب کہ بالاتفاق وصیت نامہ لکھوانے کا واقعہ جمعرات کا ہے۔[3] اور اس پر بھی روافض اور اہل سنت سب متفق ہیں کہ پھر اپنی وفات تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہیں لکھوایا، پس یقینی طور سے ہمیں ماننا پڑے گا کہ جس چیزکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھوانا چاہتے تھے، وہ کوئی ایسی چیز نہ تھی جس کی تبلیغ کے لیے آپ مامور رہے ہوں، کیونکہ قرآن کے بیان کے مطابق اللہ نے اس واقعہ سے قبل حجۃ الوداع کے موقع پر ہی دین کے مکمل ہونے کا اعلان کردیا تھا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ (المائدۃ :3) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا۔‘‘ امام بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ وصیت نامہ لکھوانے کا حکم الٰہی ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھواتے یا اسی وقت بتاتے، اگر ایسی بات ہوتی تو آپ اس کی بجاآوری سے ہر گز باز نہ آتے، آپ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق متوقع نزاع کے ازالہ کی مصلحت سے کچھ لکھوانا چاہاتھا، لیکن جب آپ کو انداز ہ ہوگیا کہ اختلاف ہونا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔‘‘[4] ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
Flag Counter