درست رائے تک جس کی رسائی نہ ہوسکی وہ گناہ گار نہ ہوگا بلکہ وہ بھی نیک نیتی سے اجتہاد کی بنا پر ثواب کا مستحق ہوگا۔ آگے فرماتے ہیں: وصیت نامہ کے بارے میں اختلاف ہوجانے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی کوئی سرزنش نہیں کی اور نہ ہی برا بھلا کہا، بلکہ سب سے کہا: ((دَعُوْنِيْ فَالَّذِيْ أَنَا فِیْہِ خَیْرٌ مِمَّا تَدْعُوْنَنِيْ إلَیْہِ)) ’’( یہاں شور وغل نہ کرو) جس کام میں مشغول ہو وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔‘‘ یہ واقعہ ایسے ہی ہے جیسا کہ غزوۂ احزاب کے موقع پر پیش آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا: ((لَایُصَلِّیَنَّ أَحَدٌ العَصْرَ إِلَّا فِيْ بَنِيْ قُرَیْظَۃَ)) [1]’’تم لوگ بنوقریظہ کے پاس پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھو۔‘‘ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگوں نے بنوقریظہ پہنچنے سے پہلے ہی اس خوف سے نماز پڑھ لی کہ نماز کا وقت نہ ختم ہوجائے۔ اور کچھ لوگوں نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہاں پہنچ کر ہی نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم وہیں پڑھیں گے۔ لیکن اس اختلاف کے باوجود کسی نے کسی کو برا بھلا نہیں کہا۔[2] 2: روافض کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس موقع پر صحابہ کا آپس میں اختلاف اور اس کے نتیجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصیت نامہ کا وجود میں نہ آنا۔ دو ایسی چیزیں تھیں جن کی وجہ سے پوری امت مسلمہ فساد کا شکار ہوئی اور وہ معصوم نہ رہ سکی۔ روافض کا یہ اعتراض یکسر باطل ہے، کیونکہ اس کا لازمی مفہوم یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بعض باتوں کی تبلیغ نہیں کی جس سے امت گمراہی سے محفوظ رہ سکتی تھی اور اپنے پاس محض صحابہ کے اختلاف کو دیکھ کر اللہ کی شریعت کو چھپا لیا اور اسی پر موت ہوگئی حالانکہ یہ مفہوم قرآن مجید کی اس آیت کریمہ کے صریح مخالف ہے: يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ﴿٦٧﴾ (المائدہ : 67) ’’اے رسول! پہنچا دیجئے جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ بے شک اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیانت سے بالکل پاک تھے، اور تزکیۂ الٰہی لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾ (التوبۃ :128)[3] کے بموجب ایسی تہمتوں سے بالکل بری تھے، اس لیے اللہ نے آپ کے قلبی رجحان کو یوں تعبیرکیا کہ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی امت پر حریص ہیں، یعنی امت کی ہدایت اور اس کے دنیوی واخروی نفع رسانی کے لیے خواہش مند ہیں۔[4] تمام |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |