نے کہا : کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمھارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے پھر گھروالوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دوکہ اس پر آپ ہدایت لکھوادیں تاکہ تم اس کے بعد گمراہ نہ ہوسکو، بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا، جب شورو غل اور نزاع زیادہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قُوْمُوْا‘‘ یہاں سے جاؤ۔ عبید اللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ( اس کے بعد) کہتے تھے: مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔ [1] دوسری روایت میں یوں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’معلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی، اس وقت آپ نے فرمایا: ((اِئْتُونِيْ بِکَتِفٍ وَدَوَاۃٍ اَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوْا بَعَدَہُ أَبَداً)) ’’شانہ و دوات لاؤ میں تمھارے لیے وصیت نامہ لکھ دوں کہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی گمراہ نہ ہوگے‘‘ لیکن یہ سن کروہاں اختلاف پیدا ہوگیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہیے تھا۔ بعض لوگوں نے کہا کہیں آ پ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام تو نہیں فرما رہے ہیں؟ بات سمجھنے کی غرض سے آپ سے دوبارہ استفسار کرلو ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ پوچھنے لگے، آپ نے فرمایا: ((دَعُوْنِيْ فَالَّذِيْ أَنَا فِیْہِ خیرْ ٌمِمَّا تَدْعُوْنَنِيْ إِلَیْہِ)) ’’یہاں شورو غل نہ کرو، جس کام میں مشغول ہووہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا: (( أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِیْنَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ وَأَجِیْزُوْ الْوَفَدَ بِنَحْوِ مَاکُنْتُ أُجِیْزُہُمْ۔)) ’’مشرکین کو جزیرہ ٔ عرب سے نکال دو، وفد ( جو قبائل کے تمھارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرنا جس طرح میں کرتا آیا ہوں‘‘ اور تیسری بات (ابن عباس نے یا سعید نے ) بیان نہیں کی، یا ( سعید بن جیر یا سلیمان نے کہا ) میں تیسری بات بھول گیا۔[2] اس حدیث اور اس کے مضمون پر مشتمل دیگر احادیث میں صحابہ کرام کے اختلاف اور شورو شغب سے متعلق جو کچھ مذکور ہے اور جسے روافض اپنے طعن وتشنیع کا ہدف بناتے ہیں درحقیقت ان کے تمام تر اعتراضات یکسر فاسد وباطل ہیں، متقدمین علماء نے اس سے متعلق ان کے چند اہم اعتراضات کی تردید کی ہے اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا ہے۔ 1: بلاشبہ صحابہ کے درمیان اختلاف رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سمجھنے اور اس کا معنی متعین کرنے میں ان کی آراء مختلف رہیں۔ حکم نبوی سے سرتابی کی وجہ سے اختلاف کبھی نہ رہا۔ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ صحابہ میں اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے اجتہاد کیا اور نیک نیتی سے اجتہاد کیا، اس اجتہاد میں دونوں فریق حق پر رہے یا ایک درست رائے تک پہنچا اور دوسرا اس سے قاصر رہا ایسی صورت میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |