Maktaba Wahhabi

212 - 263
میں اس شبہ کا جواب دیا ہے کہ یہ الفاظ متشابہات میں سے ہے اور ان کا حکم یہ ہے کہ ان کی تاویل محکمات کے مطابق کی جائے گی۔ اگر ان کی تاویل سمجھ میں نہ آئے تو ان میں زیادہ بحث وکرید کرنے کی اجازت نہیں بلکہ ان پر اس قدر اجمالی ایمان کافی ہے کہ ان سے اللہ کی جو مراد ہے وہ برحق ہے۔ لہذا ایسے موہم شرک الفاظ سے استدلال کرنا جائز نہیں۔ جس طرح بنی اسرائیل سامری کے بچھڑے کی آواز سے دھوکہ کھا کر اسے الہ سمجھنے لگے تھے۔ مگر اللہ نے ان کو اسمیں معذور قرار نہیں دیا تھا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔ اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْ هِمْ قَوْلاً وَّلَا یَمْلِکُ لَهُمْ ضَراًّ وَّلَا نَفْعاً[1] دوسرے شبہ کا جواب:’’ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطَّیْرِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهٖ فَیَکُوْنُ طَیْراً بِاِذْنِ اللّٰهِ[2]الخ سے اس شبہ کا جواب دیا کہ مٹی سے پرندہ پیدا کرنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اور بعض غائب چیزوں کی اطلاع دے دینا یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے معجزہ کے طور پر تھا۔ اس میں حضرت مسیح(علیہ السلام)کی قدرت اور طاقت کو کوئی دخل نہیں تھا کیونکہ معجزات محض اللہ کے حکم سے اور اس کی قدرت سے انبیاء علیہم السلام کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتے ہیں ان کا ظاہر کرنا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ یہاں پہلے چار کاموں کے ساتھ باذن اللہ کی قید لگائی اور پانچویں کے بعد فرمایا۔ اِنَّ فِیْ ذَالِکَ لَاٰیَةً لَّکُمْ مطلب یہ کہ سارے کام محض اللہ کے حکم سے بطور معجزہ ظہور پذیر ہوئے ان میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کی قدرت کو دخل نہیں تھا۔ نیز حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)نے خود اپنی قوم سے فرمایا۔ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْهُ[3]یعنی میرا اور تمہارا رب اور کارساز اللہ ہے لہذا اسی کی عبادت کرو اور اسی ہی کو پکارو۔ اس کے بجائے انہوں نے اپنی قوم سے یہ کبھی نہیں فرمایا کہ میں تمہارا رب اور کارساز ہوں لہذا جو شخص خود اللہ کو اپنا کارساز مانتا ہو وہ اوروں کا کارساز کس طرح بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح(علیہ السلام)نے جب محسوس کیا کہ یہود ان کا دین قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ شرارت اور دشنی پر آمادہ ہوچکے ہیں تو اعلان فرمایا کہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰهِ یعنی اللہ کی راہ میں میرا مددگار کون ہے اگر وہ خود کارساز اور مالک ومختار ہوتے تو اس طرح اپنے عجز کا اظہار نہ فرماتے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے فرمایا۔ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ[4]تو اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان کے شر سے محفوظ رہنا حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کے اختیار اور قبضہ میں نہ تھا۔ ان تمام باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ مالک ومختار اور متصرف وکارساز نہیں تھے اور نہ ہی ان کو پکارنا جائز ہے۔ تیسرے شبہ کا
Flag Counter