Maktaba Wahhabi

236 - 263
وہ ابحاث جو صرف تفسیر تبیان الفرقان میں ہیں: 1۔لفظ غیب کے لغوی‘عرفی اور شرعی معنی: علامہ ابوالقاسم الحسین بن محمد الاصفہانی لکھتے ہیں: ’’الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ‘‘[1]’’اَلْغَيْب‘‘ مصدر ہے‘جب کوئی چیز آنکھ سے چھپ جائے تو کہا جاتا ہے:وہ مجھ سے غائب ہو گئی۔اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول نقل فرمایا:’’ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ‘‘[2](انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے کہ ہُدہُد نظر نہیں آتا۔ کیا کہیں غائب ہوگیا ہے؟) جو چیز حواس سے غائب ہو یا جو چیز انسان کے علم سے غائب ہو دونوں کے لیے غیب کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے‘اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ’’ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ‘‘[3]غیب سے مراد جو چیزیں تم سے غائب ہوں اور شہادت سے مراد ہے جو چیزیٹ تمہارے سامنے حاضر ہوں۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:’’الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ‘‘[4]غیب سے مراد جو چیزیں حواس کے احاطۂ ادراک میں نہیں ہیں اور نہ وہ چیزیں بداہتِ عقل کا تقاضا ہیں اور ان کا علم صرف انبیاء علیہم السلام کے خبر دینے سے ہوتا ہے(جیسے اللہ عزوجل کی ذاتِ مقدسہ‘عرش‘کرسی‘جنت‘ دوزخ‘ جنات اور ملائکہ)۔ [5] علمِ غیب کی تعریف اور اس کی اقسام: قاضی ابوالخیر عبد اللہ بن عمر بیضاوی سورۃ البقرۃ:3 کی تفسیر میں لکھتےہیں: ’’غیب‘‘سے مراد وہ مخفی چیز ہے جس کا نہ حواس ادراک کر سکتے ہیں اور نہ بداہتِ عقل اس کا تقاضا کرتی ہے‘اور الغیب کی دو قسمیں ہیں: (1)ایک قسم وہ ہے کہ جس کا علم اور معرفت کی کوئی دلیل اورسبیل نہ ہو(اسی کو اللہ تعالیٰ کا علمِ ذاتی کہتے ہیں)جیسے اللہ
Flag Counter