ملیں جن میں دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے شریک نہیں رہے، لہٰذا اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے تو بھی صحابہ کرام اور ان میں خاص طور سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو حدیث بیان کی ہے وہ اس تخصیص کی وضاحت ہے کہ یہ حکم صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے دوسرے انبیاء کے لیے نہیں۔[1] اس طرح روافض کا یہ دعویٰ یکسر باطل ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث آیت میراث کے خلاف ہے۔ یہ حدیث دیگردو آیات کے بھی خلاف ہے: 1: وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ ۖ (النمل: 16) ’’اور سلیمان داؤد کا وارث بنا ۔‘‘ 2: اور زکریا علیہ السلام کے بارے میں اللہ نے فرمایا: وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا ﴿٥﴾ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا ﴿٦﴾ (مریم:5-6) ’’اور بے شک میں اپنے پیچھے قرابت داروں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی شروع سے بانجھ ہے، سو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب کا وارث بنے اور اے میرے رب! اسے پسند کیا ہوا بنا۔‘‘ روافض کا استدلال یہ ہے کہ میراث کا مطلب ہے جائداد واموال کا ترکہ اور مذکورہ آیات کی تفسیر میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہاں مال نہیں علم کی وراثت مراد ہے۔ [2] روافض کی اس دلیل اور استدلال کا جواب یہ ہے کہ ’’میراث‘‘ کا کلمہ اسم جنس ہے اور اس کے ماتحت مختلف انواع ہیں، پس میراث کا لفظ علم، نبوت، بادشاہت اور منتقل ہونے والی دیگر چیزوں کی وراثت کے لیے بھی مستعمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ ( فاطر:32) ’’پھر ہم نے اس کتاب کے وارث اپنے وہ بندے بنائے جنھیں ہم نے چن لیا۔‘‘ اور فرمایا: أُولَـٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴿١١﴾ (المؤمنون:10-11) ’’یہی لوگ ہیں جو وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ ان کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جن میں انھیں معنوں میں وارث اور میراث کا لفظ وارد ہے۔ بہرحال مذکورہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |