Maktaba Wahhabi

251 - 1201
حد نافذ کروں اور وہ مرجائے تو اس پر مجھے رنجیدگی نہیں ہوگی، لیکن اگرشراب نوشی کرنے والا حد کی تنفیدسے مرجائے تو میں اس کی دیت (تاوان) ادا کروں گا، کیونکہ یہ حد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نہیں ہے۔ [1] امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سنت سے نہ ہونے‘‘ کا مطلب یہ بتایا ہے کہ چالیس کوڑوں سے زیادہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، یا کوڑوں کے ذریعہ سے حد کی تنفیذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے بلکہ آپ کے زمانہ میں جوتوں اور کپڑوں کے کناروں سے چالیس کی تعداد میں اس حد کی تنفیذ ہوتی تھی۔ واللہ اعلم۔ [2] فقہائے اسلام نے خلفائے راشدین کے عمل سے شراب نوشی کرنے والے کی شرعی حدمقرر کی ہے، امام مالک، ثوری، ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم اور آپ کے مقلّدین اَسّی (80) کوڑوں کے قائل ہیں، کیونکہ اسی پر صحابہ کرام کا اجماع ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہ ہے کہ اس کی شرعی حد چالیس کوڑے ہے، اس پر چالیس کوڑوں کا اضافہ بطور تعزیر عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہے اگر امام وقت اسے نافذ کرنے میں مصلحت سمجھتاہے تو اس کے لیے جائز ہے۔ امام شافعی کا صحیح مسلک یہی ہے[3] اور امام ابن تیمیہ وغیرہ بھی اسی طرف مائل ہیں آپ فرماتے ہیں: ’’اگرشراب نوشی عام نہ ہو اور پینے والااس کا عادی نہ ہو، ابھی نیا نیا ہو، تو اس کے لیے چالیس کوڑوں ہی پر اکتفا کیا جائے۔‘‘ [4] 3۔ پیٹ میں پلنے والے بچے پر آپ کی حکومت نہیں ہے: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک حاملہ عورت لائی گئی، آپ نے اس سے حقیقت دریافت کیا، اس نے اپنے کرتوت کا اقرار کرلیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے رجم کرنے کا فیصلہ دیا، راستہ میں علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی آپ نے پوچھا: اس عورت کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ امیر المومنین نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے عورت کو واپس کردیا ہے اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، پوچھا، کیا آپ نے فلاں عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا ہے؟ آپ نے کہا: ہاں، اس نے بدکاری کا اعتراف کیا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے عورت پر آپ کی حکومت ہے لیکن اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس پر آپ کی حکومت نہیں ہے۔ مزید کہا کہ شاید آپ نے اسے ڈانٹا اور جھڑکا ہے، یا ڈرایا دھمکایا ہے؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ ضرور ہوا ہے علی رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو نہیں سنا ہے: ((لَاحَدَّ عَلٰی مُعْتِرِفٍ بَعْدَ بَلَا ئٍ، اِنَّہُ مَنْ قَیَّدْتَ، أَوْحَبِسْتَ، أَوْ تَہَدْدَّتْ فَلَا اِقْرَارَ لَہٗ۔)) ’’سزا دینے کے بعد اعتراف کرنے والے پر شرعی حد نافذ نہ ہوگی، جسے تم نے قید کرلیا، یا جیل میں ڈال دیا، یا ڈانٹا دھمکایا اس کا اقرار معتبر نہیں۔‘‘ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور کہنے لگے: عورتیں علی بن ابی طالب جیسا (فقیہ ودقیقہ رس) جننے سے
Flag Counter