Maktaba Wahhabi

251 - 263
کی اتباع کی وجہ سے تھا نہ کہ اس لیے کہ حجرِ اسود بالذات نفع دیتا ہے اور بالذات نقصان پہنچاتا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں بت پرستوں کا یہ اعتقاد تھا۔[1] مشہور غیر مقلد عالم محمد بن عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم المبارک پوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: امام ابن جریر طبری نے کہا:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع دے سکتا ہے‘یہ اس لیے فرمایا تھا کہ اُن دنوں لوگ بُت پرستی کے ایام کے قریب تھے‘حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ خوف دامن گیر ہوا کہ جاہل لوگ یہ گمان کریں گے کہ پتھر کی تعظیم کرنا اس باب سے ہے جس میں بعض پتھروں کی تعظیم کی جاتی ہے جیسا کہ عرب زمانۂ جاہلیت میں پتھروں کی تعظیم کرتے تھے‘پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ ارادہ کیا کہ لوگوں کو اس کی تعلیم دیں کہ اُن کا حجرِ اسود کی تعظیم کرنا محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی اتباع کی وجہ سے تھا نہ کہ اس لیے کہ حجرِ اسود بالذات نفع دیتا ہے اور بالذات نقصان پہنچاتا ہے۔[2] علماء دیوبند کا حجرِ اسود کی نفع رسانی کی نفی کو بالذات پر محمول کرنا: مشہور دیوبندی عالم شیخ شبیر احمد عثمانی دیوبندی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: حجرِ اسود بذاتہ نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔[3] دوسرے مشہور دیوبندی عالم شیخ خلیل احمد سہارن پوری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: ’’لا لان الحجر ينفع ويضر بذاته‘‘یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ حجرِ اسود بذاتہ نفع اور نقصان نہیں پہنچا سکتا۔[4]دیگر جمہور اہل سنت کے علماء کا اس حدیث میں حجرِ اسود کی نفی کو بالذات پر محمول کرنا: علامہ عین حنفی نے لکھا ہے کہ حجرِ اسود بغیر اذن الٰہی کے نفع ونقصان نہیں پہنچا تا۔[5]علامہ باجی مالکی نے لکھا ہے کہ حجرِ اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔[6]ملا علی قاری حنفی نے بھی لکھا ہے کہ حجرِ اسود بالذات نفع اور نقصان نہیں پہنچاتا۔[7] حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو حجرِ اسود کو مخاطب کر کے فرمایا تھا’’تو ایک پتھر ہے اور میں خوب جانتا ہوں کہ تو نفع اور نقصان نہیں
Flag Counter