’’جن کو تم نے پناہ دے دی انھیں ہم نے پناہ دے دی اور جن کو تو نے امان دی ان کو ہم نے بھی امان دے دی، علی انھیں قتل نہ کریں۔‘‘ اس واقعہ کی روشنی میں یہ مسئلہ مستنبط ہوا کہ اگر ایک مسلمان کسی حربی کافر کو امان دے دے تو اس کا امان دینا درست ہوگا اور کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہ ہوگا کہ اسے کسی طرح تکلیف پہنچائے، … لیکن اس امان دہی کو ضرر رسانی سے پاک رکھنے کے لیے علمائے اسلام نے یہ شرط لگائی ہے کہ امان دینے والا کسی جانب داری سے متہم نہ ہو، اور وہ امان مزید نقصانات کا سبب نہ بنے، یا اس معاملہ کو حاکم وقت کے پاس پیش کردیا جائے تاکہ وہ اپنی صواب دید سے مناسب فیصلہ کرے۔[1] 3: حویرث بن نقیذ بن وہب کا قتل: اس فتح عظیم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے امراء اور قائد ین سے عہدلیا کہ وہ بجز ان لوگوں کے جو ان سے آکر لڑیں اور کسی کوقتل نہ کریں، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ آدمیوں کا نام لے کر ان کا خون مباح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جہاں مل جائیں، حتی کہ خانہ کعبہ کے پردوں کے نیچے بھی تو انھیں وہیں قتل کردو، انھیں میں حویرث بن نقیذبن وہب بھی تھا، یہ مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچایاکرتا تھا، عباس بن عبدالمطلب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں فاطمہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما کومکہ سے مدینہ لے جارہے تھے، اس نے چھڑی سے چونکا لگا کر اونٹ کو اکسادیا، جس کی وجہ سے دونوں صاحبزادیاں زمین پر گرپڑیں، آج جب اس کا خون رائیگاں قرار دیا گیا اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس پر قابو پاکر اسے قتل کردیا۔[2] 4: سیّدنا علي رضی اللہ عنہ ایک اصلاحي مہم پر: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بنوجذیمہ کے پاس بھیجا تھا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے اپنی دعوتی مہم میں بعض افراد کو قتل کردینے کی جو غلطی سرزد ہوگئی تھی اس کی تلافی کریں اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد 8 ھ ہی میں خالدبن ولید کے زیر قیادت چند لوگوں کو بنوجذیمہ کی طرف دعوت اسلام کی غرض سے روانہ کیا، بنو جذیمہ کے لوگ ’’أَسْلَمْنَا‘‘ کہہ کر صاف طور سے اسلام کا اقرار نہ کرسکے بلکہ ’’صَبَاْنَا صَبَأْنَا‘‘ کہنے لگے، یعنی صابی ہوگئے صابی ہوگئے۔[3] اس کے بعد خالد رضی اللہ عنہ نے ان کوگرفتار کرنے اور قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال کی خبرملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کرفرمایا: (( اَللّٰہُمَّ اِنِّيْ اَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ)) [4]اے اللہ ! خالد بن ولید نے جو کچھ کیا ہے میں تیرے آگے اس سے برأت کرتا ہوں۔ آپ نے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |