Maktaba Wahhabi

200 - 1201
دومرتبہ انھیں کلمات کو دہرایا او ر پھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو بہت مال ومتاع دے کر بنوجذیمہ کے پاس روانہ کیا اور حکم دیا کہ جاکر معاملہ کی تحقیق کرو، آپ نے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا او رتمام مقتولین کا خون بہا اور ہر قسم کے نقصا نات کی تلافی کی، یہاں تک کہ کتوں کے پانی پینے کے برتن کی قیمت بھی دے دی۔ جب اس سے فارغ ہوئے تو بنوجذیمہ سے پوچھا: کیا اب بھی کسی کا خون بہا،یا مالی نقصانات باقی رہ گیا جس کا معاوضہ نہ دیا گیا ہو؟انھوں نے جواب دیا نہیں۔ آپ فرمایا : میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا جو مال باقی رہ گیا ہے وہ بھی میں تمھیں دیتا ہوں، تاکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پوری احتیاط ہوجائے جسے نہ وہ جانتے ہیں اور نہ تم جانتے ہو۔ چنانچہ آپ انھیں باقی مال دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آگئے، اور سارا واقعہ عرض کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا: (( أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ))[1] تم نے ٹھیک کیا اور اچھا کیا، تو اس مقدس مہم کے ذریعہ سے علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر سے ہموم وغموم کے بار گراں کو اتار پھینکا۔ [2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت عملی سے بنو جذیمہ کے لوگوں کی دل جوئی فرمائی اور ان کے رنج وغم کومٹایا۔[3] واضح رہے کہ بنوجذیمہ کے افراد کو قتل کرنے کا حکم دینا خالد رضی اللہ عنہ کی اجتہاد ی غلطی تھی اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں درگزر فرمایا اور ان کو کوئی سزا نہ دی، نہ ہی معزول کیا۔ [4] 5: سیّدنا علي رضی اللہ عنہ غزوہ حنین میں: 8 ھ میں غزوۂ حنین کے موقع پر بھی علی رضی اللہ عنہ کا مجاہدانہ کارنامہ دیکھا جاسکتا ہے، جس میں آپ نے بہادری اور فن حرب و ضرب میں تجربہ کاری کا مظاہرہ کیا۔ اس غزوہ میں آپ بھی دیگر انصار و مہاجرین کی طرح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے، قبیلہ ہوا زن کا ایک شخص سرخ اونٹ پر ایک سیاہ جھنڈا لیے ہوئے تھا اور اپنی کارروائی کرتے چلاجارہا تھا، یہ شخص جب کسی کو زد میں لیتا تو اسے نیزہ سے مار دیتا اور جب لوگ پیچھے چھوٹ جاتے تو جھنڈا بلند کرکے انھیں دکھاتا وہ پھر اس کے پیچھے لگ جاتے تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگی مہارت اور اس میدان میں طویل تجربہ کی بنا پر یہ محسوس کرلیا کہ اہل ہوازن کے جذبات جگانے اور انھیں مضبوط کرنے میں اس آدمی کا زبردست اثرہے، اس لیے آپ اور ایک انصاری یک بیک اس پر ٹوٹ پڑے اور اسے اونٹ سے گرانے پھر قتل کردینے میں کامیاب ہوگئے اور پھر دیکھا گیا کہ چندہی ساعتوں بعد دشمن شکست کھا کر بھاگ کھڑا ہوا اور مسلمان فتح یاب ہوگئے۔ [5]
Flag Counter