چنانچہ کوئی بھی شخص جو داعیانِ حق کی جماعت سے خود کو منسلک رکھنا چاہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ اس دعوت کا رکن بننے کے عوض کسی منصب، یا دنیاوی مفاد کے حصول کی شرط نہ لگائے، اس لیے کہ یہ دعوت محض اللہ کے لیے ہے اور اس کا انجام اسی کے ہاتھ میں ہے، جہاں چاہتا ہے وہاں اسے ظاہر و بلند کرتا ہے اور جو اس دعوت کے میدان میں اترتا ہے وہ بھی شروع میں صرف اللہ کی رضا چاہتا ہے اوراس کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لیے کام کرتا ہے، لیکن اگر اس میدان میں اترنے والے کی نیت صرف اور صرف حصول منصب ہے تویہ بڑی خطرناک بات ہے، جو اس کے باطنی فساد و بگاڑ کی چغلی کرتی ہے۔[1] اور اسی لیے یحییٰ بن معاذ الرازی نے کہا ہے کہ ’’تم جس شخص میں قیادت و منصب طلبی کی بو محسوس کرو جان لو کہ وہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔‘‘[2] ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوسرا سبق یہ سیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دعوت کے استحکام کے لے سرداران قبائل عرب سے ایسی مدد مطلوب تھی جو کسی طرح کے بین الاقوامی معاہدوں سے مربوط نہ ہو کہ وہ معاہدے دعوت اسلام کی راہ میں رکاوٹ بنیں اور پھر ان سے چھٹکارا پانا مشکل ہوجائے، یہ سب احتیاطی اقدامات اس لیے تھے کہ حالات ابھی نازک تھے اور دعوت اسلام کو ابھی انھو ں نے جلد ہی گود لیا تھا، یہ ممکن تھا کہ معاہدہ کردہ ممالک کی طرف سے دعوت اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کسی سازش کا سامنا کرنا پڑے اور اس کے مفادات چیلنجوں کی زد میں آجائیں۔[3] بے شک مشروط حمایت یا جزئی تائید سے دعوت اسلام کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو رہا تھا، کیوں کہ اگر شاہ کسریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنا چاہتا تو بنوشیبان کے لوگ کسریٰ سے جنگ مول نہ لیتے، اسی طرح اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے پیروکاروں کے خلاف جنگ چھیڑتا تو بھی یہ لوگ اس کے خلاف تلوار نہ اٹھاتے، بہرحال اس طرح طرفین کے درمیان مذاکرات ناکام ہوگئے۔[4] ٭ ’’اللہ کے دین کا حقیقی معاون وہی ہوسکتا ہے جو اسے ہر اعتبار سے جانچ پرکھ لے‘‘ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مثنیٰ بن حارثہ کے لیے جواب تھا، ایسے وقت میں جب کہ انھوں نے سرزمین فارس کے علاوہ سرزمین عرب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدد کی پیش کش کی تھی، مگر جسے گہری سیاست کی تہوں تک اترنا ہو، وہ اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم کرلے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلامی نگاہ اتنی عمیق اور دور رس تھی کہ اس جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔[5] ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مثنیٰ اور ان کی قوم پر جب کہ وہ اسلام لے آئے اسلام کے عمدہ و اعلیٰ اثرات دیکھے اور یہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |