Maktaba Wahhabi

181 - 1201
واضح رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بہ نفس نفیس حمراء الاسد تک جانے میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دشمن کے حوصلہ کو پست کرنے میں نفسیاتی جنگ کا اسلوب بہت اہم اور مؤثر ہوتاہے، بہرحال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لشکر کے ساتھ حمراء الاسد پہنچے اور وہاں تین دن قیام کیا، رات میں جگہ جگہ آگ جلانے کا حکم دیا، جنھیں دور دور سے دیکھا جاسکتا تھا، اس طرح حمراء الاسد کا پورا علاقہ روشن ہوگیا اور قریش نے یہ سمجھا کہ مسلمانوں کا لشکر بہت بڑا ہے، مقابلہ کی ہم میں طاقت نہیں، چنانچہ وہ خوفزدہ اور مرعوب ہو کر لوٹ گئے۔[1] ابن سعد کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ آگے بڑھے اورحمراء الاسد میں اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤ ڈالا، مسلمانوں نے وہاں قیام کیا، رات کو تقریباً پانچ سو مقامات پر آگ جلا رکھی تھی ، لشکر کی آواز اور آگ کی روشنی چاروں طرف سنی اور دیکھی جاسکتی تھی، اس طرح اس کارروائی کے ذریعہ سے اللہ نے دشمن کی ایک بھی نہ چلنے دی۔[2] قرآن کریم میں اس سرد جنگ کی طرف اشارہ موجود ہے، اللہ نے صحابہ کی مدح و منقبت کے ضمن میں اسے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے: الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ ﴿١٧٢﴾ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ ﴿١٧٣﴾فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿١٧٤﴾ إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٧٥﴾ (آل عمران :172-175) ’’وہ جنھوں نے اللہ اور رسول کا حکم مانا، اس کے بعد کہ انھیں زخم پہنچا، ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے نیکی کی اور متقی بنے بہت بڑا اجر ہے۔وہ لوگ کہ لوگوں نے ان سے کہا کہ بے شک لوگوں نے تمھارے لیے (فوج) جمع کر لی ہے، سو ان سے ڈرو، تو اس (بات) نے انھیں ایمان میں زیادہ کر دیا اور انھوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کار ساز ہے۔تو وہ اللہ کی طرف سے عظیم نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹے، انھیں کوئی برائی نہیں پہنچی اور انھوں نے اللہ کی رضا کی پیروی کی اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے۔ یہ تو شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، تو تم ان سے مت ڈرو اور مجھ سے ڈرو، اگر تم مومن ہو۔‘‘ حادثۂ افک سے متعلق سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقف: حادثۂ افک جس میں منافقین نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی، اس کی تفصیل میں ہے کہ جب اس واقعہ سے متعلق چہ میگوئیاں کثرت سے ہوگئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت قلق و اضطراب لاحق ہوا، وحی کا
Flag Counter