Maktaba Wahhabi

187 - 263
چیزوں کو پیدا فرمایا ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے۔[1] 5۔ اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرنا از مولانا الوانی رحمہ اللہ: ’’أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ‘‘[2] سب کچھ جاننے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے تو اس کے سوا کسی کو حاجات و مشکلات میں مت پکارو۔ اگر اطمینان نہ آئے تو جن کو تم نے اللہ کے سوا حاجت روا اور کارساز سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ(علیہم السلام)کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان میں سے کوئی بھی تمہاری موجودہ مصیبتیں دور کرنے اور آنے والی تکلیفوں کو روکنے کا ہرگز اختیار نہیں رکھتا۔ جن انبیاء و اولیاء اور ملائکہ(علیہم السلام)کو تم نے کارساز اور مختار و متصرف سمجھ رکھا ہے ان کا تو اپنا حال یہ ہے کہ ان میں سے جو جس قدر اللہ تعالیٰ کے زیادہ مقرب ہیں اسی قدر اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ نزدیکی تلاش کرتے ہیں، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے ترساں و لرزاں رہتے ہیں۔ ” ایھم “ میں ای موصولہ ہے اور ” یبتغون “ کی ضمیر فاعل سے بدل البعض ہے اور ”اولئک الذین الخ“ سے وہ انبیاء و ملائکہ(علیہم السلام)مراد ہیں جن کو مشرکین پکارتے تھے۔ ای اولئک الذین ای المعبودون یطلب من هو اقرب منهم الوسيلة الي اللّٰه تعالیٰ بطاعته فکیف بالابعدالخ[3]یہ آیت حضرت عزیر، حضرت عیسیٰ(علیہما السلام)اور ملائکہ کرام کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہود حضرت عزیر کو، عیسائی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کو اور مشرکین فرشتوں اور دیگر بزرگوں کو کارساز سمجھتے تھے ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔ وهم الملائكة او عیسیٰ وعزیر الخ([4])ای دعوا الذین تعبدون من دون اللّٰه و زعمتم انهم الهة و قال الحسن یعنی الملائکة و عیسیٰ عزیرا([5])قال ابن عباس فی عزیر والمسیح وامه۔ والمعنی دعوهم فلا یستطیعون ان یکشفوا عنکم الضر من مرض او فقر او عذاب ولا ان یحولوه من واحد الی واحد اخر او یبدلوه[6]
Flag Counter