سیّدنا علی رضی اللہ عنہ صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان میں: غزوۂ حدیبیہ میں صلح کی بات آنے سے پہلے چند غلام مکہ سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے، جب ان کے مالکوں کو اس کی اطلاع ملی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خط لکھا کہ ان غلاموں کو ہمارے حوالہ کردیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار کردیا اور کہا: ((یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ لَتَنْتَہَنَّ أَوْ لَیَبْعَثَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ مَن یَّضْرِبُ رِقَا بَکُمْ بِالسَّیْفِ عَلَی الدَّیْنِ قَدِ امْتَحَنَ اللّٰہُ قَلْبَہُ عَلَی الْاِیْمَانِ)) ’’اے قریش کے لوگو! تم اپنی حرکت سے باز آجاؤ ورنہ اس بات کے لیے تیار رہو کہ اللہ تعالیٰ تم پر ضرور باضرور ایسے شخص کو مسلط کرے گا جو صرف اسلام کی خاطر تلوار سے تمھاری گردنیں مارے گا، اللہ نے اس کے دل کی ایمانی صداقت کو اچھی طرح آزمالیا ہے۔‘‘ صحابہ کرام نے حسرت سے پوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ دراصل ان میں ہر ایک یہی امید لگائے بیٹھا تھا کہ وہی اس عظیم ترین بشارت نبوی پر فائز ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ‘‘ وہ جو کہ جوتے میں پیوند لگانے والے ہیں، آپ کی مرادعلی رضی اللہ عنہ تھے، جن کو آپ نے اپنا جوتا پیوند کاری کے لیے دیا تھا۔ [1] جب مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان صلح پر اتفاق ہوا تو صلح نامہ تحریر کرنے کی سعادت علی رضی اللہ عنہ کو ملی، چنانچہ آپ نے جب صلح نامہ لکھتے ہوئے ’’محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا، تو مشرکوں نے اعتراض کیا کہ محمد کے ساتھ ’’رسول اللہ‘‘ نہ لکھا جائے، کیونکہ اگر ہم آپ کو رسول اللہ مانتے تو آپ سے جنگ نہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اُمْحہ‘‘ اسے مٹا دو۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہامیں نہیں مٹا سکتا ہوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اسے مٹا دیا، اور اس بات پر مصالحت ہوئی کہ آئندہ سال آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کے ساتھ تین دنوں کے لیے مکہ میں داخل ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ان کی تلواریں میان میں ہوں۔[2] صاف ظاہر ہے کہ علی رضی اللہ عنہ محض عظمت ومحبت رسول کی دفاع میں ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹانے کو تیار نہ تھے۔ [3] متعصب رافضیوں نے غزوۂ حدیبیہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کے موقف کو اپنی ہدف کا نشانہ بنایا ہے، جس میں صلح کے معاملہ کو لے کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہونے والی گفتگو اور اعلان رسول کے باوجود پہلی فرصت میں سرمنڈانے اور قربانی کرنے میں صحابہ کی شش وپنج اور تاخیر کو خوب اچھالا ہے، حالانکہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے خواہ وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوں یا صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے دوسرے صحابہ اُن میں کسی کا بھی موقف قابل اعتراض نہیں ہے، دراصل واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے۔ آپ نے مدینہ میں قیام کے دوران ہی اس خواب |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |