Maktaba Wahhabi

188 - 1201
سے اپنے صحابہ کو مطلع کردیا اور جب غزوہ ٔ حدیبیہ کے سال صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف کوچ کیا تو سب کو یقین ہوگیا کہ یہ مہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کی تعبیر ہے چنانچہ وہاں پہنچ کر سب کچھ ہونے کے بعد جب طرفین میں صلح پر اتفاق ہوگیا، جس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ مسلمان اس سال واپس لوٹ جائیں، اور آئندہ سال آکر عمرہ کریں گے، توصحابۂ کرام پر یہ بات سخت گراں گزری[1] ان میں عمر رضی اللہ عنہ جو کہ حق کے سلسلہ میں سخت گیری اور شدید موقف کے لیے مشہور تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وجہ پوچھنے لگے اور بار بار اسے چھیڑ تے رہے، ایسی کوئی بات نہ تھی کہ آپ کو رسول اللہ کی صداقت پر شک تھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر کوئی اعتراض، بلکہ ایک بات جو ان کے دل ودماغ میں بیٹھ چکی تھی کہ مسلمانوں کا مکہ میں دخول ہوگا اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے، آپ اسی چیز کی تفصیل ووضاحت چاہتے تھے اور اس کوشش میں لگے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دخول مکہ پر ابھاریں اور مدینہ واپس نہ جائیں، اس لیے کہ اسی عمل میں دین الٰہی کے لیے عزت و غلبہ اور مشرکوں کے لیے ذلت ورسوائی مخفی تھی۔ [2] امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ علماء کی نظر میں عمر رضی اللہ عنہ کا استفسار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونے والی گفتگو کسی شک پر مبنی نہ تھی، بلکہ جو حقیقت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہوں سے پوشیدہ تھی آپ اس کی وضاحت چاہتے تھے، آپ اپنی فطرت کے مطابق کفر کی تذلیل اور اسلام کے ظہور کے خواہاں تھے۔[3] اس مسئلہ میں آپ نے اجتہاد سے کام لیا تھا اور اس لب ولہجہ کے پیچھے آپ کی شدتِ حق پسندی، دین اسلام کی تائیدی قوت اور ایمانی غیرت کار فرماتھی، اس کے ساتھ ہی فرمان الٰہی: فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ (آل عمران:159)[4] پیروی کرتے ہوئے صحابہ کرام کو جس شورائیت اور اظہار رائے کا عادی بنایا تھا، یہ تکرار بھی اسی کا ایک حصہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ سے مشورہ لیا کرتے تھے، ان کی رائے قبول بھی کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کی تمہید میں آپ نے قافلہ ابو سفیان کو چھیڑ نے کے لیے صحابہ سے مشورہ کیا اور اس پر عمل کیا، غزوۂ اُحد کے لیے مشورہ کیا کہ مدینہ میں رہ کر لڑی جائے یا باہر نکل کر، اکثریت نے مشورہ دیا کہ مدینہ کے باہر لڑی جائے اس لیے آپ نے باہر جا کر ان سے لڑائی کی، غزوۂ خندق کے موقع پر صحابہ سے مشورہ کیا کہ اگر اس ایک سال کے لیے مدینہ کی ایک تہائی کھجوروں پر مشرکین دشمنوں سے مصالحت کرلی جائے تو کیسا ہے، سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما نے اس رائے کو پسند نہ کیا اور آپ نے انھیں کی بات مان لی۔ غزوۂ حدیبیہ کے موقع پر صحابہ سے مشورہ کیا کہ اگر اچانک مشرکین کی آل اولاد پر حملہ کردیا جائے تو کیسا ہوگا، ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا :ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ عمرہ کرنے آئے ہیں بہرحال اس طرح کے بے شمار واقعات سیر ت کی کتب میں محفوظ ہیں۔ [5]
Flag Counter