خلاصہ یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی رائے میں اس بات کو ترجیح دینا چاہتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے معرکہ آرائی کی میری بات مان لیں، اس لیے بار بار اس سلسلہ میں کبھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کبھی ابو بکر رضی اللہ عنہ سے حجت کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ دونوں ہی صلح کی قرار داد پر متفق ہیں تو آپ نے اصرار کرنا ہی چھوڑدیا اور اپنی رائے واپس لے لی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی آپ سے در گزر کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر رضی اللہ عنہ کی صداقت، اور نیک نیتی پر یقین تھا۔ [1] رہا یہ اعتراض کہ اعلان رسول کے باوجود صحابہ کرام سرمنڈوانے اور ہدی ذبح کرنے سے اس وقت تک رکے رہے جب تک کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو ذبح نہ کیا اور سر نہیں منڈوالیا، حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام کے اس طرز عمل میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہ تھی، بلکہ اس کی چند توجیہات ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ توقف ممکن ہے اس وجہ سے رہا ہو کہ انھوں نے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو ندب پر محمول کیا ہو کہ جن کا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوگا اور چھوڑنے والا گناہ گار نہ ہوگا۔ ٭ یا اس امید میں رہے ہوں کہ ممکن ہے بظاہر اس جا نبدارانہ صلح کی تردید کے لیے وحی الٰہی کا نزول ہوجائے۔ ٭ یا ممکن ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مکہ نہ جائیں اور صرف صحابہ کو اس سال مناسک کی تکمیل کے لیے مکہ جانے کی اجازت دے دیں۔ ان تمام خیالات اور احتمالات کا پیدا ہونا بعید از قیاس نہیں، کیونکہ نزول شریعت کا زمانہ تھا، اور احکام منسوخ ہوا کرتے تھے۔ ٭ یا اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس مقام پر اس وقت کی پیچیدہ صورتِ حال نے انھیں فوری توجہ سے غافل کردیا ہو، وہ افکار وہموم میں ڈوبے رہے ہوں، کیونکہ نفسیاتی طور سے انھیں اہانت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، حالانکہ انھیں اپنے اوپر یقین اور اعتماد تھا کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور طاقت وغلبہ کے بل بوتے عمرہ مکمل کرلیں گے۔ ٭ یا تعمیل حکم میں اس لیے تاخیر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مطلق ہے جس کی فی الفور بجاآوری ضروری نہیں ہے۔ ٭ یا ان تمام احتمالات کو ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے سمجھا۔[2] بعض روایات میں ہے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ صحابہ میرے حکم کی فوری تعمیل نہیں کررہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور ان سے صورت حال کا ذکر کیا، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابھی انھیں کچھ مت کہئے، جانبدارانہ صلح اور بغیر کسی فتح کے لوٹنا ان پر بھی آپ ہی کی طرح گراں گزرا ہے۔[3] آپ کو مشورہ دیا جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ جائیں اور کسی سے بغیر کچھ گفتگو کیے ہوئے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |