ذریعہ سے بھیج دیا۔ [1] درحقیقت قاتلین عثمان پر حکم الٰہی کی تنفیذ کا شدید حرص ہی اس بات کا اصل سبب بنا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی قیادت میں اہل شام علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کا انکار کردیں، وہ لوگ یہی سوچتے تھے کہ قصاص کی تنفیذ بیعت پر مقدم ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام شام کی منصب ولایت کے لالچ میں نہ تھا اور نہ آپ یہ چاہتے تھے کہ جس چیز پر میرا حق نہیں ہے میں اس کا مطالبہ کروں، کیونکہ آپ کو بخوبی یہ بات معلوم تھی کہ خلافت چھ ممبران شوریٰ کے بقیہ افراد میں سے ہی ہوگی اور علی ان میں سب سے افضل ہیں اور وہی اس کے زیادہ حق دار بھی ہیں۔[2] مدینہ میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع و اتفاق رائے سے علی رضی اللہ عنہ پر بیعت خلافت منعقد ہوئی تھی اور اس سلسلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد غلطی پر مبنی تھا۔ 3۔سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے خط کا جواب دیتے ہیں: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام کئی خطوط بھیجے، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے کسی خط کا جواب نہ دیا، عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سے تقریباً تین ماہ گزر جانے کے بعد بالآخر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کے ساتھ جوابی خط نہیں بلکہ ایک جوابی دستاویز ہی بھیج دی، وہ آدمی اسے لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، علی رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تمھارے پیچھے کیا ہے؟ اس نے کہا: میں ان لوگوں کے پاس سے آرہا ہوں جو قصاص سے کم پر راضی نہیں ہیں۔ سب کے سب غیض و غضب سے برانگیختہ ہیں، ساٹھ ہزار بزرگوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کی قمیص کے نیچے، جو کہ منبر دمشق پر رکھی ہوئی ہے، روتا بلکتا چھوڑ کر آیا ہوں۔ علی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے اللہ میں تیرے سامنے عثمان کے خون سے اپنی برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کا وہ ایلچی آپ کے سامنے سے چلا گیا، وہ خوارج جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، انھوں نے کوشش کی کہ اسے پکڑ لیں اور قتل کردیں، لیکن وہ کافی محنت و مشقت کے بعد وہاں سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔[3] 4۔اہل شام سے جنگ کرنے کے لیے علی رضی اللہ عنہ کی فوجی تیاری اور اس پر حسن رضی اللہ عنہ کا اعتراض: معاویہ رضی اللہ عنہ کی جوابی تحریریں پڑھنے کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے اہل شام سے جنگ کرنے کی ٹھان لی، مصر کے امیر قیس بن سعد کو لکھا کہ لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کریں، کوفہ میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام بھی اسی طرح کا خط لکھا اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بھی یہی کہلوا بھیجا، خود لوگوں کو خطاب کیا، انھیں جنگ پر ابھارا، فوجی تیاری کا پختہ عزم کرلیا، پھر مدینہ میں قثم بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنا نائب بنا کر وہاں سے نکل پڑے، آپ اس بات کے لیے عازم تھے کہ جس نے بھی معاویہ کی بات مانی اور میری اطاعت نہ کی اور لوگوں کے ساتھ میری بیعت میں شرکت نہ کی میں اس سے ضرور قتال کروں گا، ٹھیک اسی موقع پر آپ کے صاحبزادے حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے پاس آئے اور کہا: اے ابا محترم! |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |