معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بارے میں یہ سوچتے تھے کہ عثمان کی مدد اور آپ کے قاتلوں سے قصاص کا مطالبہ ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے کہ میں ان کے خون کا ولی ہوں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ﴿٣٣﴾ (الاسرائ:33) ’’اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔‘‘ چنانچہ آپ نے اسی وجہ سے لوگوں کو جمع کیا اور انھیں عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں خطاب کیا اور کہا کہ وہ بے عقل منافقین کے ہاتھوں قتل کردیے گئے، ان ظالموں نے اس حرام خون کا احترام نہیں کیا، حرام مہینہ میں اور بلد حرام میں ان کا خون بہایا، پھر لوگ اس خطاب کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور اس گھناؤنے جرم کی خوب خوب مذمت کی، ان کی آواز یں بلند ہوگئیں، ان میں بہت سارے اصحاب رسول بھی شامل تھے، مرہ بن کعب نامی ایک صحابی رسول اٹھے اور کہا: اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث آپ سے نہ سنی ہوتی تو آج نہ بولتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنہ اور ان کی قربت کا ذکر کیا، اتنے میں کپڑے میں لپٹا ہوا ایک آدمی وہاں سے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شخص ان ایام میں ہدایت پر ہو گا، میں نے اٹھ کر اسے دیکھا تو وہ عثمان بن عفان تھے۔ پھر میں نے ان کا چہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا اور کہا: کیا یہی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔[1] اس کے علاوہ ایک دوسری حدیث بھی ہے جس کی معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے قاتلین عثمان سے قصاص کے مطالبہ میں تاثیر رہی اور انھیں ان کے عزم مصمم تک لے جانے میں یہ حدیث ایک قوی محرک ثابت ہوئی، اس کے راوی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما ہیں، وہ روایت کرتے ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بلا بھیجا اوران کو نصیحت کرتے ہوئے ان کے کندھا پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا: ((یَا عُثْمَانُ اللّٰہُ عَسَی أَنْ یُلْبِسَکَ قَمِیْصًا فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَی خَلْعِہِ فَلَا تَخْلَعْہُ حَتَّی تَلْقَانِیْ۔)) ’’اے عثمان! عنقریب اللہ تعالیٰ تمھیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر منافقین اسے تم سے اتارنا چاہیں تو نہ نکالنا، یہاں تک کہ تمھاری مجھ سے ملاقات ہوجائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہی بات دہرائی۔ نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ پھر میں نے ان سے کہا: اے ام المومنین! اب تک یہ حدیث آپ سے کہاں غائب تھی، آپ نے فرمایا: میں بھول گئی تھی، اللہ کی قسم مجھے یاد نہ تھی، نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے یہ حدیث معاویہ بن ابی سفیان کو سنائی، لیکن انھیں میری بات پر اطمینان نہ ہوا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس خط لکھا کہ یہ حدیث میرے پاس لکھ کر بھیج دو، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے وہ حدیث لکھ کر خط کے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |